مکرمی! حقہ درمیان میں، لوگ چاروں طرف، سیاست پر من مرضی کی الٹی سیدھی بحث، دیہاتی زندگی کا مزہ دے رہی تھی۔ دتے نے کش لگایا، تمباکو بڑا چنگا اے! بوٹیا کتھوں آندا ای“ جتھوں ولی لیاندا اے پر اُگوں نہیں لبھے گا، بوٹا ملکی حالات سے پریشان تھا کیوں! کیوں اُگوں تمباکو .... (کاشت ہونا) بند ہو جائے گا“ دتے نے طنزیہ انداز میں بوٹے کو جھاڑ پلا دی۔ بوٹا کڑک کر بولا ”امریکہ اُسامہ نوں لبھن افغانستان وچہ جے آ گیا اے“ ”فٹے منہ تیرا ایدا تمباکو نال کی تعلق اے“ اس فقرے سے ان کی گفتگو میں طغیانی آ گئی سب متوجہ ہوئے بوٹے نے اپنے دادا سے بچپن کی سنی ایک کہانی سنائی۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب امریکہ نیا نیا افغانستان آیا تھا۔غریب کسان کی کماد کی فصل لہلہاتی نظر آتی تو گا¶ں کا چودھری حسد سے کوئلہ ہو گی اس کے شیطانی ذہن میں ایک ترکیب آئی ایک دن بڑا چودھری صبح صبح اٹھا تھوڑی دیر کھیتوں میں گھوما پھرا پھر زور زور سے شور مچایا۔ سُور، سُور، سُور“ لوگ گھروں سے باہر آ گئے۔ پوچھا کدھر ہے اس نے غریب کسان کے کھیتوں کی طرف اشارہ کر دیا پھر کیا تھا جو جس کے ہاتھ میں آیا لے کر کماد اور کپاس کو تہس نہس کر دیا۔ سُور نہ تھا نہ ملا۔ بھائیو امریکہ کا بھی صرف اسامہ کا بہانہ ہے دیکھ لینا ایک وقت آئے گا جب امریکہ کہے گا اسامہ پاکستان میں ہے پھر ہمارے سب کھیت اجاڑ دے گا۔ نہ کوئی تمباکو کاشت کرے گا نہ ہمیں ملے گا کوئی بھی بوٹے کی بات کا جواب نہ دے سکا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس محب وطن ان پڑھ من کے سچے دیہاتی بوٹے کی بات پر غور ضرور کرے جس کی اشد ضرورت ہے۔(فیاض قادری لاہور 37572677- 37572766 )
خطِ غربت کی جانب بڑھتے ایک کروڑ انسانوں کا مستقبل؟۔
Apr 16, 2024