جانے والا سال آنے والے سال کے کندھوں پر بہت بھاری بوجھ ڈال گیا ہے۔ جمہوریت اور اس کے اداروں اور مالکوں کی شاندار کارکردگی کا بوجھ ہے۔ جمہوریت کے چیف ترین ایگزیکٹو کی کامیابیوں کا بوجھ ہے۔ حکمران برادران کے محبوب نظام کی گڈ گورننس کا بوجھ ہے۔ ملک کے عوام کی خوش ترین حالی کا بوجھ ہے اور این آر او شاہ کی دہشت گردوں کے خلاف رشک اوباما کامیابیوں کا بوجھ ہے۔ اتنا بوجھ ہے کہ اس بے چارے سال مےں تو خادم پنجاب کے کسی سستے تندور سے دو چار روٹیاں خرید کر گھی چینی مےں ملاجلا چوری تک بنانے کی بھی ہمت نہیں ہوگی۔ اس کے بوجھ کے بارے مےں سوچتے ہی ہمیں تو پریشانیوں کے بارہ ماہ دبا لیتے ہےں اگر یہ سال چوری نہ بنا سکا تو این آر او جمہوریت کا میاں مٹھو کھائے گا کیا؟ سر اپنی ماسی آمریت کا؟ اس ماسی کا سر جو عدل و انصاف کے کھنگوروں سے ڈرتی اپنا سر کج کلاہی کونے کھدروں مےں چھپاتی پھر رہی ہے؟ اور وہ جو گلی گلی شور ہے کہ این آر او چور ہے؟ کیا یہ سال اس شاہی کا دامن ایسے غیر جمہوری الزامات سے صاف کر سکے گا؟ اس سال کی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نوخیز جمہوریت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی مشترکہ مشکلات کو دیکھیں اور فہرست بنائیں کہ اس حکمران جمہوریت کے پیارے اور راج دلارے کون کون ہےں؟ بے نظیر جمہوریت کے گدی نشین آصف علی زرداری ہےں ان کے آئینی، قانونی اور جمہوری حق و حقوق کے امریکہ مےں سفیر حسین حقانی ہےں روز رفتہ ای سی ایل مےں نام شامل کروا لینے کا اعزاز حاصل کرنے والوں کی جو فہرست شائع ہوئی تھی اس مےں ان کا بھی نام شامل تھا یعنی این آر او شاہی کے حق حقوق کی حقانیت کا علمبردار حقانی پاکستان سے باہر تو نہیں جاسکتا لیکن پاکستان سے باہر سفیر ہو سکتا ہے۔ تو ہے سید یوسف رضا گیلانی کی حکمرانی کے ساتھ اس سے بڑا کوئی اور مذاق؟ مذاق تو یہ اس ملک اور قوم کے ساتھ بھی بہت سنگین ہے اور عدل و انصاف کے ساتھ بھی مذاق ہی ہے مگر ان کے ساتھ تو اور بھی سینکڑوں ہزار مذاق ہوتے رہتے ہےں جہاں سو وہاں سوا سو۔ لیکن یوسف رضا گیلانی تو اس نظام کے سید بھی ہےں اور گیلانی بھی ہوتے ہےں ان کی حکمرانی مےں ایک بندہ ملک سے باہر تو جا نہ سکتا ہو کہ دامن خدمات سے آلودہ ہے مگر وہی بندہ ملک سے باہر ان کی حکمرانی کا سفیر ہو اور ان کی فاقہ مست رعایا سے سفارت کاری کے بھاری اخراجات بھی وصول کر رہا ہو؟ ہوا ہے دنیا مےں کہیں اور کسی جمہوریت کے چیف ایگزیکٹو کے ساتھ ایسا مذاق؟ مگر خیر مذاق کا برا تو وہ مانے جس کے پاس مذاق مذاق کے کھیل تماشہ سے انٹرول کی فرصت ہو۔ اس کو چھوڑیں اور سال نو اور جمہوریت کے چیف کی ایک مشترکہ مشکل کا اندازہ کریں عدالتوں کے مسلمہ ”ملزموں“ کو ملک و قوم کے مسلمہ اور متفقہ عظیم محسن ثابت کرنے کی مشکل۔ مملکت پاکستان کی عظمت و عزت کے نشان اور قانون و ضوابط کے پاسبان آصف علی زردار کو ایک سیاسی پارٹی چلانے کے بوجھ سے نجات دلانے کی آزمائش۔ سید اور سال کے لئے بڑی آزمائشیں ہےں کوئے یار مےں۔ مارچ رفتہ مےں صدر مکرم نے پورے تیس منٹ پارلیمنٹ سے خطاب فرمایا تھا اور درخواست کی تھی کہ قوم کی منتخب برادری انہیں 17 ویں ترمیم اور باوردی 58 ٹوبی کے بوجھ سے نجات دلائے۔ ان کی درخواست پر پارلیمنٹ کی سپیکر نے فوری طور پر ماہرین نجات کی ایک کمیٹی مقرر کر دی تھی سال گذشتہ رفتہ کے بقیہ مہینوں مےں وہ قسم قسم کے ماہرین اجلاس تو کرتے رہے مگر صدر مکرم کا وہ بوجھ ہلکا نہیں کر سکے تھے سال و سید پر قوم کی طرف سے نہ سہی صدر کی طرف سے تو یہ اخلاقی فرض عائد ہونا ہی چاہئے اگر وہ اس فرض کو ادا کر دیں تو صدر مکرم جمہوریت اور عوام ان کے لازماً شکر گزار ہوں گے اسی خطاب مےں صدر مکرم نے اپنے برادران بزرگ کو پنجاب کی حکمرانی گورنر سے واپس دلا دی تھی اس کے باوجود ان کے بھائیوں نے انہیں اس ناپسندیدہ آمرانہ وراثت سے چھٹکارا دلانے کے لئے ابھی تک کچھ نہیں کیا۔ ایسے ہوتے ہےں بھائی؟ ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی جمہوریت کے سر پر یہ سب کچھ رکھ کر انہیں بھی بیرون ملک بھیج دیں کہ جاﺅ اپنے اصل مالک کے پاس خون چوسو۔ میرے لئے ان کا این آر او ہی کافی ہے۔ مےں اس کی دیکھ بھال کروں یا تمہیں پالوں؟ صدر آصف علی زرداری نے سید یوسف رضا گیلانی کو اپنی جمہوریت کا چیف اور ایگزیکٹو بنایا مگر انہیں اس احسان کا بھی کوئی احساس نہیں کوئی تو ہو صدر مکرم کے احسان چکانے والا۔ اگر نیا سال اور پرانا سید احسانات کا احساس نہ کریں تو ہماری درخواست ہے کہ صدر مکرم 17 ویں ترمیم اور 58 ٹو بی کا کہیں کوئی مزار ہی بنوا دیں اور اس کی گدی کی وراثت قاضی حسین احمد اور حضرت اور مولانا فضل الرحمن کے نام لکھوا دیں۔ اگر انہیں مشکل پیش آئے تو علامہ رحمان ملک کو اس گدی کا سرپرست اعلیٰ مقرر کر دیں۔ نئے سال کے کندھوں پر اور کیا کیا بوجھ ڈال گیا ہے آنجہانی ہو جانے والا سال؟ صدر آصف علی زرداری کی ان کے برادر بزرگ میاں محمد نواز شریف سے ملاقات یعنی پھر سے ملاقات کرانے کا بوجھ ہے، میثاق جمہوریت پر عمل کرنے کا ایک اور مشترکہ عہد کرنے کا بوجھ ہے اور قومی اسمبلی کے جو کوئی دوچار ارکان صرف ارکان ہی ہوتے ہےں ان کے روزگار کا بوجھ ہے۔ اتنی مہنگائی مےں وہ بے چارے کیسے کر رہے ہوں گے صرف رکنیت پر ہی گزارہ؟ پاکستان کرکٹ کے کنٹرول والے بٹ بزرگ کو کرکٹ کھیلنے کی کہیں سے تربیت دلانے کا بوجھ ہے۔ ایک سال اور اتنے بوجھ، ہماری درخواست ہے کہ سید صاحب این آر او شاہ جی کو تیل مالش کرنے سے کچھ وقت نکالیں اور اس معصوم سال کے ساتھ بھی کچھ تعاون کریں ایسا نہ ہو کہ وہ اعلان ہی کر دے۔ع
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں