یہ بات تحریر کرتے ہوئے دکھ اور افسوس ہو رہا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے تقریباً 8 ہزار افراد کو این آر او سے مستفید فرمایا‘ میرا خیال ہے کہ اس طرح تو کوئی شہنشاہ اعظم بھی ان لوگوں کو معاف نہیں کرتا جس طرح پرویز مشرف نے قومی دولت لوٹنے والوں کو یک جنبش قلم معاف فرما دیا۔ سپریم کورٹ نے کمال حوصلے‘ قانونی تدبر اور اعلیٰ قومی اقدار و نظریات کو پیش رکھتے ہوئے مبنی برانصاف فیصلہ صادر کر دیا جو قومی تاریخ کا درخشندہ سنگ میل ثابت ہو گا‘ اب حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ نا اہلی اور کم فرصتی اور کم حوصلگی کا مظاہرہ نہ کرے اور تصادم کا راستہ اختیار نہ کرے ملک پہلے ہی بے شمار عذابات اور خطرات کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ اگر حکومتی بزر جمہران کرام اور سپریم کورٹ میں محاذ آرائی کا خطرناک آغاز ہو گیا تو ملک و قوم کو بہت مہنگا پڑے گا۔ کسی بھی ملک کے تین بڑے ستون ہوا کرتے ہیں‘ انتظامیہ‘ عدلیہ اور مجلس قانون ساز‘ اگر ان تینوں ستونوں میں جھول‘ انتشار یا محاذ آرائی واقع ہو جائے تو وہ ملک طوائف الملوکی اور افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے اور قومی تشخص تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ اگر پاکستان کی سپریم کورٹ کے صائب فیصلے کو اس کی صحیح روح کے مطابق نافذ نہ کیا گیا تو پاکستان عزیز از جان میں شدید بحرانی کیفیت کا آغاز ہو جائے گا اور پھر اس کے نتائج نامعلوم کیا برآمد ہوں۔ بلکہ بعض بااثر ذرائع اس بات کا خدشہ بھی پیش کرتے ہیں کہ اس کھینچا تانی اور Tug 0f War کی وجہ سے سول وار کی خطرناک صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی حکمران یہ سمجھنے کی غلطی فرمائے کہ وہ سندھ کارڈ کو استعمال کرے گا تو یہ غداری کے زمرے میں آنے والا خطرناک حربہ تصور کیا جائے گا۔ پاکستان میں فقط ایک ہی کارڈ ہے اور وہ کارڈ پاکستان کا کارڈ ہے۔ میرے علم میں ہے کہ کس طرح 18 فروری 2008 ءکو پیپلزپارٹی کو ووٹ جذبہ مفاہمت اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی شہادت کے صدقے میں حاصل ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ ان ووٹوں کی تعظیم و تکریم کا خیال رکھتے ہوئے سندھ کارڈ کا نعرہ اور پھر یہ کہ سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے میں یہ نعرے لگانا کہ ہم اپنے صدر زرداری صاحب کے خلاف کوئی بھی بات پسند نہیں کریں گے اور
دما دم مست قلندر ہو گا‘ اس طرح کے نعرے اور بیانات اسلامی ‘جمہوری اور فلاحی مملکت پاکستان کےلئے زیب نہیں دیتے میں سادہ الفاظ میں یہ گزارش کروں گا کہ اس طرح کے غیر اخلاقی اقدامات سے آپ جمہوریت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ بلکہ اس سے جمہوریت کے ڈیل ریل ہونے کا خدشہ ہے ہم سیلیوٹ پیش کرتے ہیں اپنی سپریم کورٹ کے تمام معزز جج صاحبان جنہوں نے این آر او کے حوالے سے انتہائی مدبرانہ مبنی برانصاف فیصلہ صادر کیا ہے ہم بصد احترام اپنے سیاسی قائدین کی خدمت اقدس میں گزارش کریں گے۔ کہ وہ پاکستان عزیز از جان کی سالمیت و استحکا اور شاندار اور تابندہ جمہوری مستقبل کے لئے اپنے آپ کو عدالتوں سے سرخروئی حاصل فرمائیں اور پھر بیشک اپنی اپنی مسند وزارت پر جلوہ افروز ہوں ایک نئی جمہوریت روایت کو جنم دیں اور یہ ذہن نشین رہے کہ Bull-fighting کے ذریعے سے ملک انتہائی بحران کا شکار ہو جائے گا اور افراد حضرت قائداعظمؒ کے حوالے سے گلی کوچوں میں یہ کہتے پھریں گے۔
میں بچا کے چل بسا دیمک سے ارض پاک کو!
کرسیوں کے چند کیڑے ملک سارا کھا گئے!
دما دم مست قلندر ہو گا‘ اس طرح کے نعرے اور بیانات اسلامی ‘جمہوری اور فلاحی مملکت پاکستان کےلئے زیب نہیں دیتے میں سادہ الفاظ میں یہ گزارش کروں گا کہ اس طرح کے غیر اخلاقی اقدامات سے آپ جمہوریت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ بلکہ اس سے جمہوریت کے ڈیل ریل ہونے کا خدشہ ہے ہم سیلیوٹ پیش کرتے ہیں اپنی سپریم کورٹ کے تمام معزز جج صاحبان جنہوں نے این آر او کے حوالے سے انتہائی مدبرانہ مبنی برانصاف فیصلہ صادر کیا ہے ہم بصد احترام اپنے سیاسی قائدین کی خدمت اقدس میں گزارش کریں گے۔ کہ وہ پاکستان عزیز از جان کی سالمیت و استحکا اور شاندار اور تابندہ جمہوری مستقبل کے لئے اپنے آپ کو عدالتوں سے سرخروئی حاصل فرمائیں اور پھر بیشک اپنی اپنی مسند وزارت پر جلوہ افروز ہوں ایک نئی جمہوریت روایت کو جنم دیں اور یہ ذہن نشین رہے کہ Bull-fighting کے ذریعے سے ملک انتہائی بحران کا شکار ہو جائے گا اور افراد حضرت قائداعظمؒ کے حوالے سے گلی کوچوں میں یہ کہتے پھریں گے۔
میں بچا کے چل بسا دیمک سے ارض پاک کو!
کرسیوں کے چند کیڑے ملک سارا کھا گئے!