قصہ سول سروس کی تباہی کا 

Feb 01, 2025

وزیر احمد جوگیزئی

سردار نامہ۔۔۔۔ وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogzai@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی 

ہندوستان مہاراجہ اشوک کے دور میں ایک متحد ہندوستان ہو ا کرتا تھا اس کے بعد سے ہندوستان کبھی بھی ایک متحد ہندوستان نہیں رہا،ہمیشہ سے ہی مختلف ریاستوں میں بٹا رہا ہے،شاید آمد و رفت پرپابندی نہیں تھی لیکن ریاست ایک نہیں تھی،اس کے بعد مغل دور میں ہندوستان متحد ہوا اور پھر اس کے بعد انگریز کے دور میں متحد ہندوستان نے ایک سلطنت کی شکل ختیار کی انگریز کے متحد ہندوستان کو متحد رکھنے میں بیو رو کریسی کا کلیدی کردار تھا،بلکہ کہنا چاہیے کہ مرکزی کردار بیو رو کریسی کا تھا۔یہ ایک وسیع اور عریض سلطنت تھی جس میں کہ بر ما بھی شامل تھا اور انگریز بہادر کی بنا ئی ہو ئی سلطنت تھی۔اس عظیم اور بہت بڑی سلطنت کو چلانے کے لیے انگریز نے انڈین سول سروس قائم کی،جس کے تحت اس ہندوستان کو چلایا گیا۔اور بہت ہی بہتر انداز میں چلایا گیا،آج بھی ہماری حکومتیں گورننس کے مسائل میں گھری ہوئی ہیں،اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ سول سروس بہت ہی کمزور ہو چکی ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ اس کو کمزور کر دیا گیا ہے،سول سروس نے ہی ہندوستان کو متحد رکھا اور سول سروس میں شمولیت کا واحد پیمانہ میرٹ،اور محنت ہی تھی اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔نہایت ہی قابل،ہنر مند اور شخصی قابلیت کے حامل افراد کو اس سروس میں شامل کیا جاتا تھا،اور یہی قابلیت ہی تھی جو کہ بہترین نظام گورننس کی بنیاد تھی۔اور یہی وجوہات تھیں کہ سول سروس کہ آبیاری اور تکریم پورے ہندوستان میں لازم تھی۔لیکن بعد میں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے اپنے بنیادی سول سروس ڈھانچے کو اپنے ہاتھوں سے ہی کمزور کر دیا ہے،اور اس کی عزت اور تکریم میں کمی ہماری غلطیوں کی وجہ سے ہی ہو ئی ہے۔ہمیں اس صورتحال میں بہتر ی کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے علاوہ ہمارے پاس کو ئی چار ہ بھی نہیں ہے،پاکستان کو ایک مضبوط بیو رو کریسی ہی آگے بڑھا سکتی ہے،اور دنیا بھر میں یہی ماڈل رہا ہے کہ ریاستوں کو سول سروس ہی چلایا کرتی ہیں،پالیسیاں تبدیل ہو تی رہتی ہیں،سیاسی حکومتیں بھی آتی جاتی رہتی ہیں لیکن سول سروس اپنی جگہ موجود رہتی ہے اور کام کرتی رہتی ہے۔ہمیں بھی بیسٹ انٹر نیشنل ماڈل سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے حصے میں کم بیو رو کریسی آئی کیونکہ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی متحدہ ہندوستان میں زیادہ بیو رو کریسی ہندو تھی اور وہ اس وجہ سے تھی کہ بر صغیر میں مسلمان تعلیم کے شعبے میں ہندو¿ و ں سے پیچھے رہ گئے تھے اور اس وجہ سے ان کی تعداد انڈیا کی سول سروس میں کم تھی جس کا نقصان بھی ہوا۔تعلیم میں بھی پیچھے رہنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ 1857ءتک انگریزوں نے بر صغیر میں تعلیم سمیت نظام حکومت چلانے کے لیے فارسی زبان کا ہی استعمال کیا لیکن اس کے بعد جب جنگ آزادی لڑی گئی،تو پالیسی میں تبدیلی آئی اور سرکاری زبان کے طور پر فارسی کی جگہ انگریزی زبان کو رائج کر دیا گیا۔جب تک فارسی تھی تب تک تو مسلمان خوش تھے کہ کام چل رہا ہے لیکن اس کے بعد جب انگریزی آئی تو مسلمان تعلیم میں پیچھے رہتے چلے گئے۔لیکن پھر بھی کچھ خوش قسمت لوگ سول سروس میں آچکے تھے اور اس کی وجہ سے پاکستان ابتدائی دور میں بہتر انداز میں آگے بڑھا اور 58ءتک پاکستان دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرتا رہا،لیکن اس کے بعد صورتحال تبدیل ہو ئی اور ملک زوال کی طرف جانا شروع ہو گیا۔یہ صورتحال 58ءمیں مارشل لا ءکے نفاذ کے بعد پیش آئی،اس دور کے بعد سیاست دانوں اور بیو رو کریٹس کو زبر دستی گھر بھیجا گیا،جس کی وجہ سے ہمارے سیاست دان کمزور ہو ئے،بیو رو کریسی بہت ہی زیادہ کمزور ہوگئی اور بزنس مین تو تباہ ہی ہو کر رہ گئے کیونکہ ان کا تحفظ ختم ہو گیا۔بلکہ تحفظ ختم ہونا تو ایک بات ہے پاکستان میں کاروباری اشخاص کی جو درگت بنائی گئی اس کے بعد تو معیشت کا یہی حال ہونا تھا جو کہ ہو چکا ہے بہر حال اب پچھتائے کیا ہو ت جب چڑیا جگ گئیں کھیت۔اس صورتحال کے بر عکس ہندوستان نے اپنی سول سروس کو برقرار رکھا،اور نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس کی مضبوطی کی بھی کوششیں کیں جس کے بہترین اثرات نظر آئے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی معاشی ترقی کی رفتار کو پر لگ گئے اور آج ہندوستان ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔یہ سب ترقی صرف اور صرف ان کی بیو رو کریسی کی وجہ سے ہی اور ترقی ان کی بیو روکریسی کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے۔اور یہی جہ ہے کہ ان کی سیاست میں بھی ایک تسلسل اور استحکام رہا ہے،جبکہ ہمارے ہاں تو شروع سے ہی بیو رو کریسی کو کام ہی نہیں کرنے دیا گیا ان کو بھی بخشا نہیں گیا سیاسی بنیادوں پر ٹارگٹ کیا گیا اور اس سب کے بعد توقع کی جاتی ہے کہ بیو رو کریسی ہمیں بہتر نتائج دے گی۔ایسا ممکن نہیں ہے۔اور ایسا کرنے والوں نے خود جو کچھ کیا کہ انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت پانچ دریاو¿ں میں سے چار دریا ہندوستان کے حوالے کر دیا گیا۔اور انہی دریاو¿ں سے ہمسایوں کی زراعت چل رہی ہے اور ہماری زراعت مشکلات کا شکار ہے۔اگر بیو رو کریسی میں جان ہو تی تو یہ انڈس واٹر ٹریٹی نہ ہو تی اور آج پاکستان میں پنجاب اور سندھ کے درمیان پانی کے معاملے پر لڑائی نہ ہو رہی ہوتی۔پنجاب اور سندھ کے درمیان جو پانی کے حوالے سے مسئلہ پیدا ہوا ہے میرے خیال میں اس حوالے سے سندھ کا موقف درست ہے اور ان کا اس سلسلے میں اٹھایا گیا اقدام درست ہے۔بہر حال پاکستان اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہی دو لخت ہوا ہے اور دو لخت ہو کر بھی ہم نے کچھ سیکھا نہیں ہے۔بلوچستان کے حالات خطرناک ہیں اور وفاقی حکومت ان حالات کو نظر انداز کر رہی ہے کیوں کر رہی ہے؟ یہ الگ سوال ہے لیکن وفاقی حکومت کو تو بھرپور قوت کے ساتھ بلوچستان کی ترقی کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔بلوچستان کی آبادی کم ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کی ترقی پر توجہ نہ دی جائے۔بلوچستان کے عوام کے تحفظات دور کیے جانے چاہیے اور ترقی کے لیے بھرپور کوششیں کرنے
 کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں