سیّد روح الامین
ممتاز نقاد، ادیب او رمحقق ڈاکٹر مشتاق عادل ادبی و صحافتی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ پنجابی زبان کے عاشق اور اُردو کے دلدادہ ہیں۔ کئی نایاب کتب کے مصنف و مترجم ہیں۔ اُن میں ”نقوشِ ساہیوال“، ”یاراں رنگ“، ”ساہیوال کی ادبی تاریخ“، ”تاریخ ساہیوال“، ”قلم کا قرض“، ”سورج لبھدا سایہ“، ”تنقید۔ ماضی حال اور مستقبل“ ، ”تراشے“، ”مراتب اختر۔ شخصیت و فن“ وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر مشتاق عادل کی حال ہی میں ایک کتاب ”ڈرپوک“ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ یہ معروف ناول نگار حسین شاہد کے پنجابی ناول ”ڈراکل “کا اُردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ جب ہم کسی دوسرے علاقے میں قدم رکھتے ہیں۔ وہاں کی تہذیب و تمدن، معاشرت، سیاسی صورتِ حال، دفاعی نقل و حرکت، علمی خدمات و ارتقاءکے تعلق سے معلومات فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہیں سے آپ کو ترجمہ کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ترجمہ کی اہمیت سے کسی بھی حال میں انکار ممکن ہی نہیں ہے۔ ”ڈرپوک“ (ڈراکل) پنجابی زبان کا سب سے بڑا ناول ہے۔ اپنے موضوع، تکنیک اور اسلوب کے حوالے سے ناول کی صنف میں اس سے پہلے اتنا بڑا کام نہیں ہوا۔ اس ناول میں پہلی بار ملکی خزانے کو بے رحمی سے لوٹنے والوں کے ساتھ ساتھ ملکی معاملات میں بیوروکریسی اور فوج کے کردار کی حقیقت بھی بیان کی گئی ہے۔ یہ حقیقت بیان کرتے ہوئے حسین شاہد نے کہیں بھی غلط بیانی نہیں کی بلکہ بڑی دلیری ، ہمت اور سچائی سے اس ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والے چہروں سے نقاب اُتارے ہیں۔ ڈاکٹر طارق عزیز ”ڈرپوک“ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”ڈرپوک پنجابی ادب کی ہی نہیں بلکہ ملکی سیاسیات، معاشیات اور عمرانیات کی بھی ایک ایسی کہانی ہے جس طرح کی دوبارہ لکھنے کا حوصلہ شاید کوئی دوبارہ کر سکے۔“
ڈاکٹر مشتاق عادل ”پنجابی چانن“ کے نام سے ساہیوال سے عرصہ دراز سے پندرہ روزہ ایک پنجابی اخبار شائع کر رہے ہیں جس میں سیاسی، سماجی، ادبی اور ثقافت کے حوالے سے عوام الناس کو بھرپور انداز میں آگاہی مِلتی ہے۔ ڈاکٹر مشتاق عادل کی یہ ایک ادب کے ساتھ ساتھ صحافتی خدمت بھی ہے۔
جناب حمید رازی ”ڈرپوک“ کے پُشتے پر رقم طراز ہیں کہ ”جناب مشتاق عادل کو یہ کریڈٹ جاتاہے کہ انہوں نے پنجابی فکشن کو اُردو میں ترجمانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اس سے پہلے وہ محترم افضل احسن رندھاوا کے ناول ”دوآبہ“ کا اُردو میں ترجمہ کر چکے ہیں۔ آج تک پنجابی فکشن کو اُردو قارئین تک پہنچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی ....”ڈرپوک“ کی کہانی چالیس پینتالیس برسوں پر محیط ہے۔ ناول کے شروع میں ناول نگار نے اشرافیہ او ردیگر بالادست طبقوں اور اداروں کا ذکر کیا ہے جو عام آدمی کا استحصال کرتے ہیں اور اس کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ناول میں آئین کے ساتھ کھلواڑ سے لے کر مارشل لاءکی چیرہ دستیوں کا بھرپور تذکرہ ملتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کے پسِ منظر اور ضیائی دور کے مارشل لاءکی ”ضیا الحقیوں“ کی تفصیل بھی موجود ہے۔ جناب مشتاق عادل صاحب کو مبارک باد کہ انہوں نے ایک خوبصورت ناول کا خوبصورت انداز میں ترجمہ کیا ہے۔ ترجمہ عام فہم ، رواں اور سہل ہے۔ بلاشبہ ترجمہ کاری ایک تخلیقی عمل ہے جو ادیب یا نقادبیک وقت محقق، مصنف اور تنقیدی صلاحیتوں سے متصف ہو وہی ایک مترجم ہو سکتا ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر مشتاق عادل ان سبھی اوصاف کے مالک ہیں۔
محمد حفیظ خان ”ڈرپوک“ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ” ڈاکٹر مشتاق عادل ایک ہمہ جہت اور مشتاق تخلیق کار ہیں۔ ادب کے سبھی گوشے ان کی دسترس میں رہے ہیں۔ ایسے میں جب کہ پنجابی ان کی ماں بولی او راُردو اُن کا عشق ہے تو بھلا کیسے ممکن ہے کہ ان دونوں زبانوں کے ”وٹاندرے“ میں انہیں کسی بھی مشکل کا سامنا ہوتا۔ ”ڈراکل“ میں حسین شاہد کا اسلوب اپنی جگہ لیکن ڈاکٹر مشتاق عادل نے ”ڈرپوک“ میں جس اسلوب کو پوری مہارت اور سلاست سے اپنایا ہے جب کہ زبان دانی، محاورہ اور برجستگی نے اسے خاصے کی چیز بنا دیا ہے۔ یہ ”ڈراکل“ کا نیا جنم ہے جو یقینا اس کے بھرپور ابلاغ کی بنیاد ثابت ہو گا۔
بلاشبہ حسین شاہد کے پنجابی ناول ”ڈراکل“ کے اُردو ترجمے ”ڈرپوک“ سے دیگر قومی زبانوں کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں گے۔ دوسری جانب پنجاب کے وہ اُردو لکھاری جو اپنی مادری زبان پڑھنے سے قاصر ہیں انہیں بھی پنجابی فکشن پڑھنے کی سہولت میسر ہو جائے گی۔ شاہد حسین شاہد پنجابی کے قدآور ادیب ہیں۔ اُن کی کتابوں میں ”لاپریت“ (کہانیاں)، ”پورنے“ (تنقید)، ”ڈراکل“ (ناول)، ”عشق تے روٹی (شاعری) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے کچھ او ربھی کتابیں لکھی ہیں۔
”ڈرپوک“ دو سو اٹھاسی صفحات پر مشتمل خوبصورت کاغذ پر مجلد شائع کی گئی ہے۔ فکشن ہاﺅس، بُک سٹریٹ،68۔ مزنگ روڈ لاہور سے رعایتی قیمتی مبلغ بارہ سومیں دستیاب ہے۔ ہمیں واثق اُمید ہے کہ ممتاز نقاد ڈاکٹر مشتاق عادل صاحب تراجم کا یہ سلسلہ جاری رکھیں گے اور اہلِ ذوق کو یوں ہی علم و ادب سے سیراب کرتے رہیں گے۔