خیبر پختونخواہ میں قیامِ امن :چند قابل عمل گزارشات

Feb 01, 2025

ذوالفقار علی … صدائے علی

 صدائے علی…ذوالفقار علی
 zulfiqar686@yahoo.com 

پاکستان کو اشرافیہ نے اپنے'' سہنری حصار '' میں لے رکھا ہے۔ یاد رکھیں ملک میں جب محروم طبقہ جنم لیتا ہے تو احساس محرومی بدتریج بڑھنے لگتی ہے جس کا ثبوت حکام کی طرف سے عوامی حقوق سلب کرنا ہے۔معاشی اور سیاسی استحصال شروع ہوتو بغاوت اورسر کشی سر اٹھانے لگتی ہے ، ہتھیار اٹھانا آخر آپشن کہلاتا ہے۔اس کا فائدہ خارجی اور دشمن عناصر اٹھاتے ہیں۔آج کل سوشل میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا۔خبریں پہنچتے اورپھیلتے سیکنڈ بھی نہیں لیتیں،پلک جھپکتے ہی خبر دنیا کے کونے میں پہنچادی جاتی ہے۔قبائیلوں علاقوں پاڑہ چنار ، کرم ،باجوڑ اور ملحقہ شورش زدہ علاقوں کے معاشی اور سیاسی حقوق کو پامال کیا گیا۔ سب اس میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔دو دھائی سے خیبر پختونخواہ کے شورش زدہ علاقوں میں بے مقصد اورغیر ضروری آپریشن کیے گئے،نتائج صفر رہے۔غیروں کی خوشنودی کی خاطر فوجی اور سول حکمرانوں نے اپنوں کو ناراض کیا،بے گناہ معصوم انسانوں کا خون ناحق بہایا گیا، اس پختون پٹی کے غیور باسیوں سے قبائل اور پختونخواہ کے دروبام اور کئی سڑکیں سرخ کی گئی۔شاید اس ملک کے باسیوں نے دیس کی خاطر اتنی بھاری قیمت ادا کی ہو جتنی پختونوں نے جرات کی داستانیں رقم کی ہو ں۔ یہاں کے اندھے قانون سے ہربار طالع آزما آمر اور سیاسی پنڈت بچ نکلا۔ آمروں اورغیر ذمہدار سیاستدانوں کو عوامی ،بے حمیتی نے بالادست اور ستم کی کھلی چھٹی دی ہے۔کرم، باجوڑ ،مہمند ،بنوں ،اور ملحقہ پٹی ( لائن) سمیت بلوچستان کے محروم عوام کا گلہ دبایا جاتا ہے۔ان کا معاشی ،سیاسی اور بد ترین استحصال ہنوز جاری ہے۔اداروں کی کارکردگی مایوس کن اور صفرہے۔غیروں نے اس کا خوب سیاسی فائدہ اٹھایااور موقع کو غنیمت مانا۔ آج بھی پختونخواہ کا صوبہ '' سیاسی لاوارث'' ہے جہاں قانونی عملداری ندارد…!!مقتدرہ اور وفاق ''خاموش'' رہ کر بے بس عوام کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف صوبائی انتظامیہ بے حمیتی کی تصویر بنی بیٹھی ہے۔ یہاں خون ریزی پربے رخی اورشورش ،بے ہنگم ہنگاموں اور موت کے بے رحم رقص پر رقصاں معصوم معاشرتی باسیوں کے زخموں پر نمک پاشی کر رھی ہیں۔وفاق اور ملک کو اربوں ڈالر قرضوں اور بیرونی امداد کی صورت میں ملتا ہے۔ سیاسی انتظامیہ نے بد عنوانی ،لوٹ مار میں کمال پیدا کر دیا۔قیمتی وسائل بد عنوانی کی نذر ہو رہے ہیں۔ افسر شاہی کے کئی پرزے اربوں کے سکینڈلوں میں ملوث ہیں۔وفاق اور مقتدرہ کی بے انصافیاں الگ داستاں ہیں۔قبائل، پاڑہ چنار کرم، مہمند ،بنوں اور اس پختون حلقوں کے معاشی حقوق تو ایک طرف مکین امن و سکون اورسکھ کے لئے ترس رہے ہیں۔یہاں روزگار ،صحت ، تعلیم معاشی مساوات کا قحط الرجال ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔قبائل بلوچستان، بنوں ،مہمند ،باجوڑ، پاڑہ چنار کے غیور ، بہادر ،محب وطن باسیوں کو پہلے آئیے۔پہلے پائیے کی بنیاد روزگار کے لاکھوں مواقع دیے جائیں۔مدرسوں، اسپتالوں ،کالجوں جامعات کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔اربوں کے فنڈز سرکاری رقومات کی ترجیحی فراہمی میں دوگنا اضافہ کیا جائے۔معاشی ، تعلیمی بے انصافیاں ،امن کے دشمن ہیں۔امن کے لئے ،محب وطن ،زیرک ، منجھے ہائے قد آور سیاسی شخصیات باعمل دیانت دار علمائ کرام ،منتخب عوامی نمائندوں ،قبائل اور شورش زدہ متاثر علاقوں کے حاضر اور سبکدوش اعلیٰ سئینیر فوجی افسروں ،افسر شاہی ،قبائلی عمائدین کا نمائندہ جرگہ بنا کر پائیدار امن کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے سرچ آپریشن اور انٹیلیجنس کی بنیاد ان متاثرہ ،شورش زدہ علاقوں کو خارجی اور مقامی شر پسندوں کو نکال باہر کیا جائے۔امن کے قیام اور روزگار ،صحت ، تعلیم ،سماجی ،معاشی ،انصاف کی فراہمی کو یقینی اور قابل عمل بنانے کے لئے سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہر سیاسی ، مذہبی اور غیر سیاسی حلقوں سے مشاورت کرکے یہاں کا سکھ امن دوبارہ دیرپا اور بحال کیا جا سکتا ہے۔مقامی انتظامیہ ،مقامی حکومت کے نمائندوں کو بھی امن ،خوشحالی ،ترقی کے عمل میں برابر شامل کیا جائے۔جب تک معاشی تفریق کا خاتمہ نہیں کیا جاتا۔قبائل اور ملحقہ علاقوں میں بغاوت اور بے امنی ختم نہیں ہو گی۔یہ بہت زیادہ ضروری ہے۔یہاں آپریشن سے مسائل حل ہوئے نہ ہوں گے۔دنیا میں آپریشن کے سنگین اورخطرناک نتائج اجاگر کئے گئے۔ذرائع ابلاغ ،سرکاری ٹی وی چینلز کے ذریعے ان محروم زدہ علاقوں کے محب وطن باسیوں کو اعتماد لیا جائے۔وفاق اور مقتدرہ ان کی حمایت کے حصول کے لئے ،ٹی وی چینلز پر بات چیت کے ذریعے بحث مباحثہ کرے۔ان باسیوں کو حب الوطنی کی یہ سزا نہ دے۔انصاف کے تقاضوں کو مکمل پورا کیا جائے۔صوبہ خیبر پختونخواہ کے عوام کے اعتماد ،وفاق کے ساتھ دائمی تعاون ،قومی یکجہتی کی مقتدرہ اور اعلیٰ ترین سیاسی انتظامیہ قدر کریں۔صوبہ خیبر پختونخواہ کے عوام کو دیوار سے نہ لگایا جائے۔عوامی اعتماد اور تعاون کے حصول کے لئے بڑی مذہبی جماعتوں اور سیاسی جماعتوں کے قد آور قومی شخصیات کو استعمال کیا جائے۔ان کو مشاورت میں شامل اور ان کو خصوصی معاون کے طور پر لیکر ان کو عزت دیا جائے۔اس طرح ایک سلگتا عوامی مسئلہ بھی حل ہو گا۔وطن میں امید ،خوشحالی ،امن کے چراغ روشن ہوں گے۔ملک مضبوط ہو گا۔اور فوج ،پارلیمنٹ سیاستدانوں کے وقار میں بھی اضافہ ہو گا۔یہ معاشی سیاسی ترقی اور استحکام کے لئے نہایت ضروری ہے۔ ثقافتی اور کھیل کود کی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔ ضروری ہے کہ قیام امن کو ہر صورت میں یقینی بنایا جائے!!

مزیدخبریں