مکرمی! منٹو کو ہم سے جدا ہوئے 66 برس ہوگئے۔ میرے والد گرامی تحریک پاکستان کے رہنما اور ادبی اور سماجی اور سیاسی شخصیت چودھری شرعت علی نے ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘ 1935ء میں جاری کیا اور نصابی و ادبی کتب کی اشاعت کیلئے 1929ء میں پنجاب بک ڈپو کا قیام عمل میں لائے۔ میرے سکول کے واقعات ہیں ۔سکو ل سے چھٹی ہوتی تو میں سیدھا دکان پر آجاتا والد صاحب سے دعا سلام ہوئی تھوڑی دیر بعد دیکھا کہ ایک خوبصورت شخص تانگے پر آیا اور تانگے سے اتر کر دکان میں آگیا۔ والد محترم بڑی محبت سے کھڑے ہوگئے اور بڑی خوشی سے اس شخص سے ملے مجھے کہنے لگے خالد بیٹا! ان سے ملو یہ ’’سعادت حسن منٹو‘‘ ہیں بہت بڑے ادیب، افسانہ نگار مجھے دلی طور پر منٹو سے مل کر خوشی ہوئی کہ ایک بڑے افسانہ نگار سے ملاقات ہوگئی۔ منٹو نے آگے بڑھ کر مجھے پیار کیا اور بہت خوش ہوئے۔ اس کے بعد بارہا میری منٹو صاحب سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ منٹو کے افسانے ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘ میں چھپتے تھے۔ جب چچا مرزا ادیب اور والد محترم ادب لطیف کے دفتر میں نہ ہوتے تو منٹو میرے پاس بیٹھ جاتے مجھ سے طرح طرح کی پیاری پیاری باتیں کرتے، لطیفے سناتے اور پیار سے کہتے تم میرے بیٹے ہو والد چودھری شرکت علی فوت ہوگئے مگر منٹو کی محبت اسی طرح برقرار رہی وہ اسی خلوص اور پیار سے ملتے رہے میں سکول سے لیٹ ہوجاتا تو منٹوصاحب میرا انتظار کرے۔ مرزا ادیب سے کہتے آج چھوٹا چودھری ابھی تک سکول سے نہیں آیا میں جب آجاتا تو بہت خوش ہوتے پھر مجھ سے پوچھتے چودھری کیا کھانا ہے۔؟ منٹو کہا کرتے تھے بیٹا خالد جب لاہور کے ناشرین میری کتاب اور افسانے چھپانے سے ڈرتے تھے تو اس وقت آپ کے والد نے بڑی جرأت سے کام لے کر میری کتاب ’’بادشاہت کا خاتمہ‘‘ شائع کی تھی اور مجھے بہت خوشی ہوئی۔ کہنے لگے آپ کے والد کی بہت یاد آتی ہے۔18 جنوری کو سعادت حسن منٹو کی 66 ویں برسی پر ایک تعزیتی اجلاس بھی ہوا۔
( محمد خالد چودھری بابائے اردو بازار)
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024