پاکستان تو 14 اگست 1947ٗء کو آزاد ہوا ۔ یہ اللہ کی خصوصی مہربانی اور قائد اعظم کی کوششوں کا ثمر تھا کہ ہمیں دو قومی نظر یہ کی بنیاد پر علیحدہ وطن حاصل ہوا۔ مگر ہمارا انداز حکمرانی کبھی بھی قابل رشک نہیں رہا۔ ہم نے نام نہاد جمہوریت کو رواج دیا جس میں سرمایہ دار، جاگیردار اور امراء نے اقتدار سنبھالا اور غریب بے چارہ تہی دست اور تہی داماں رہا آج اُسے آٹے کے چکر میں ڈال دیا گیا ۔ کیونکہ آٹاہی غریب کی بنیاد ی ضرورت ہے جس سے وہ اپنا پیٹ بھرتا ہے اس کو اتنا مہنگا کر دیا گیا ہے کہ اُسے جینے کی کوئی سدھ نہ رہے ۔ ریاست مدینہ کا والی توراتوں کو گلیوں میں چکر لگا یا کرتا تھا کہ کوئی دکھی، پریشان حال اور مصیبت کا مارا مدد کیلئے پکارے تو امیر
المومنین اس کی مشکل کو آسانی میں بدل سکے ۔ مگر پاکستان کی ستر سالہ تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ یہاں غریب کا کوئی پر سان حال نہیں رہا۔ جمہوریت کی مروجہ تعریف تو اہل علم نے عوام کی حکومت عوام کے ذریعے اور عوام کی خاطر قرار دیا۔ ارض پاک کی جمہوریت میں حکمرانوں نے مزے اُڑائے چند ایک مقتدر ٹولے کو ساتھ ملا کر وسائل زیست پر قبضہ جمایا۔ اقتدار کا رسیا ٹولہ بار بار بدلتے حکمرانوں کے ساتھ رنگ بدلتا رہا۔ یہ ذہین وفطین اقتدار کے پجاری درخت بے ثمر سے اڑ کر شاخ پھلدار پر چپچپاتے رہتے ہیں۔ صاحبان اقتدار نے ملک کے وسائل کو لوٹا اور خوب لوٹا۔ اپنی نسلوں کیلئے دیار غیر میں محلات بنائے، جائیدادیں خریدیں، فلک بوس پلازے بنائے اور ملکی ترقی کے نام پر جہاں سے قرضہ ملا پیچھے پلٹ کر نہ دیکھا حتیٰ کہ موٹرویز اور ہوائی اڈوں کو بھی گروی رکھ دیا۔
عوام بنیادی ضرورتوں سے محروم رہے۔ تعلیم ، صحت
اور روزگار سے محرومی نے عوام میں مایوسی پھیلائی۔ آج ملک کا وہ طبقہ جو کسی دور میں بھی اقتدار سے وابستہ رہا لوٹ کر اس قدر مال و متاع ، جاگیریں، پلاٹس اور پلازے بنا لئے کہ حق حکمرانی اُسی کو ہی زیب دیتا ہے، بقول علامہ اقبال ۔
مے کدے میں ایک دن اک رندزیرک نے کہا
ہے ہمارے شہر کاوالی گدائے بے حیا
تاج پہنایا ہے کس کی بے کلا ہی نے اُسے
کس کی عریانی نے بخشی ہے ! اسے زریں قبا
اس کے آب لالا گوں کی خون دہقاں سے کشید
تیرے میرے گھر کے مٹی ہے اس کی کیمیا
اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی
دینے والا کون ہے، مرد غریب وبے نو!
ملک پاکستان میں نام نہاد جمہوریت نے آج کے حکمرانوں کو غریب ستانے کا مشغلہ دیا ہے۔ وہ عوام الناس کی بے بسی پر فہیقہ زن ہیں کہ کس طرح آٹے کے حصول میں اُسے سرگرداں کر دیاہے۔ پہلے سندھ
میں کتوں کے کاٹنے پر ویکسین کی عدم دستیابی پر حظ اٹھایا جا تا رہا ہے۔ کبھی لاڑکانے میں ایڈز کے مرض سے عوام بد حال ہوتے رہے۔ اب تو زرعی ملک میں آٹے کی نایابی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اپنی ملک کی پیدا شدہ گندم بیرون ملک فروخت کر کے صاحبان اقتدار نے جیب بھرے اور اب مہنگے داموں ممالک غیر سے گندم منگوا کر زرکثیر تجوریوں میں بھری جائے گی۔ کیا پلاننگ ہے صاحبان اقتدار کی؟ اللہ انہیں ارض پاک کی آزادی کا حق ادا کرنے کی توفیق دے۔ ذرا گر دن اونچی کر کے سر حد پار مشرقی جانب دیکھئے شہریت بل کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے۔ NRCاور CCAبل کے خلاف دہلی میں مسلمان عورتوں کا دھرنا ، بوڑھی مائیں، عورتیں، معصوم بچے ٹھٹھرتی سردی میں اپنے مستقبل کو بچانے کیلئے کو شاں ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو بقول منیر نیازی ۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اُسے آواز دینی ہو، اُسے واپس بلانا ہوہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024