تقسیم ہندسے اگرچہ برطانیہ تو چلا گیا مگر اس کا پیدا کردہ مسئلہ کشمیرگزشتہ بہتر سال سے تنور بنا ہوا ہے جس میں ریاست کے باشندگان جل رہے ہیں . بہتر سالہ تاریخ میں کوئی دن خالی نہیں کہ جس دن کسی نے اپنی جان ناحق نہ دی ہو میں ذاتی طور پر بھی اپنوں سے بچھڑنے والوں میں شامل ہوں مجھے کیو ں اپنوں سے جدا ہونا پڑا اس وقت مجھے بھی پتہ نہیں تھا دنیا کا یہ خوبصورت مگر بدبخت ترین خطہ کے باسی اہیک دوسرے سے ملنے کے لیے ملنے ،ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں میں شرکت سے قاصر،درمیان میں 2005 سے اگست2019تک محدود قسم کی ملاقاتوں کا سلسلہ چلا مگر وہ بھی گزشتہ پانچ ماہ سے ختم ہو گیا آج جبکہ دنیا ایک گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر چکی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دور کہلاتا ہے مگر دنیا کا یہ خوبصورت حصہ ان سہولیات سے یکسر محروم ومجبورہے جیسے یہ کراہ ارض پر ہے ہی نہیں ڈیڑھ کروڑ انسانوں کا دنیا سے کوئی رابطہ نہیں یہ سب کچھ اس ریاست پر اپنا مکمل تسلط زبردستی جمانے کے لیے بھارت کے انتہاپسند وزیر اعظم نریندر مودی کی کارستانی ہے بھارت نے اپنی آزادی کے پہلے دن سے ہی جموں وکشمیرکو انڈیا کا حصہ بنانے کے لیے اس ریاست کے خریدار حکمران ہری سنگھ کے ساتھ سازباز کرکے اور اس کے ساتھ ریاست کی اس وقت کی پاپولر متنازعہ سیاسی قیادت شیخ عبداللہ کو اپنے جال میں بہلاپھسلاکرالحاق ہندوستان پر آمادہ کرلیالیکن اسکے باوجودہری سنگھ اور شیخ عبداللہ نے انڈین حکومت کے ساتھ مشروط معاہدہ کیا جس کے مطابق ریاست کے معاملات میں اقوام متحدہ میں ہونے کی وجہ سے ریاست کے تشخص کو برقرار رکھنے کا وعدے پراستصواب حق خود ارادیت تک تھا ابھی ریاست عالمی سطح پر ایک متنازعہ خطہ تسلیم شدہ ہے اور اس ایشو کو اقوام متحدہ میں لے جانے والا بھی خود انڈیا ہے تقسیم ہند اور پاکستا ن اور بھارت کو برطانیہ نے تقسیم کے طے شدہ فارمولہ کی خلاف ورزی پاکستان کی عوام قبائیلیو ںکے نام سے مشہور ہوئے نے ریاست میں باشندگان ریاست جموں وکسمیر جو کہ چوراسی ہزار مربع میل سے زائد علاقہ پر مشتمل تھی اور جس پر ڈوگرہ حکمران تھا اور جس نے اس ریاست پر ایک سو سال آزاد وخودمختار اور یک شخصی حکومت کی اس کے کئی مظالم کی داستانیں زبان زد عام وخاص تھیںکے خلاف ریاست کی اکژیتی آبادی مسلمان نالاں تھے اور وہ بھی کسی بہانے کی ٹوہ میں تھے مسلمانان ریاست نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے اپنا سیاسی پلیٹ فارم آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے نام سے 1932 میں بنایا یہ مسلمانان ریاست کا پہلا سیاسی پریشر گروپ تھا کے مہاراجہ نے حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے دو سال کے اندر اندر ریاست کی عوام کو جزوی طور پر شامل اقتدار کرنے کے لیے اسمبلی کا وجود معرض میں لایا اس طرح کی اپنی قانون ساز اسمبلی کا ہونا اگرچہ برائے نام تھی لیکن تھی اس طرح مہاراجہ کا اپنا حکومتی ڈھانچہ اور سسٹم تھا 1932میں مسلم کانفرنس کے قیام کے چند سال بعد ہی اس جماعت کو پہلے مرحلہ پر ختم کرکے نیشنل کانفرنس بنانے کے عمل نے ریاست کے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی پہلی کارروائی ہوئی وہ دن اور آ ج کا دن ریاست کے عوام کے ساتھ ساتھ سوچ اور پھر رقبہ بھی تقسیم ہواہندوستان تقسیم ہوا پنجاب تقسیم ہوا بنگال تو پہلے ہی تقسیم ہو کر اپنی علیحدہ شناخت قائم کرچکا تھااس کے باوجود آ ج کے بنگلہ دیش اس وقت کے مسلم بنگال نے انگریزوں سے آزادی کے لیے گراں قدر خدمات دیں پاکستان کی خالق جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام بھی ڈھاکہ میں ہوا قرار داد پاکستان پیش کرنے کا اعزاز حاصل کرنے والا ایک بنگالی مولانا فضل الحق تھا ادھر ریست کے مقامی مسلمانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت 32 ہزار مربع میل علاقہ ڈوگرہ استبداد سے آزاد کروا لیا تھا ، سرینگر اور جموں جو ریاست کے دو دارالحکومت تھے پر مقامی آبادی کا قبضہ قریب تھا کے ایک سازش کے تحت اس ایشو کو اقوام متحدہ میں انڈیا لے گیا جس نے اپنے کئی اجلاسوں کے بعد اگست1948میں اپنی ایک متفقہ قرارداد جس کو پاکستان اور ہندوستان ہر دو نے منظور کیا جس کے تحت آج کی اس متنازعہ ریاست کے باسیوں کو اقوام متحدہ نے تین آپشنز دیے پاکستان یا انڈیا میں سے کیسی ایک یاپھر خودمختار رہنے کا حق تیسرے آپشن پر پہلے مرحلہ پر تو اتفاق کیا مگر؟ بھارت نے منظم پلانگ کے تحت تقسیم کے وقت پنجاب کے وہ علاقے جو مسلم اکثریت والے تھے خصوصاً گرداسپور وغیرہ کو انڈیا میں شامل کیا جس کی سرحد ریاست جموں کشمیر سے ملتی تھی یوں پری پلاننگ کے مطابقانڈیا اور برطانیہ کے تھینک ٹینک نے سازباز سے کشمیر میں پر قبضہ کرنا تھا ۔ ریاست کے سیاسی لیڈر شیخ عبداللہ کو اپنا ہمنوا بنا کر انڈین فو ج کو ریاست میںداخل ہونے کا موقعہ مل گیاادھر ریاست بھر میںمسلمان ڈوگرہ کی فوجوں کو شکست پر شکست دیتے ہوئے گلگت بلتستان مظفرآباد کپواڑہ بارہ مولہ ریاست پونچھ ریاسی میرپور فتح کرچکے تھے اور اکھنور تک پہنچ گئے تھے راجوری میں آزاد فوج کے پہلے کمانڈر انچیف راجہ سخی دلیر خان نے باقاعدہ انتظامات سنبھال لیے تھے ایک حکومت ریاست پونچھ کی تحصیل سدھنوتی کے جنجال ھل کے مقام پر بن گئی جس کے صدر غلام نبی گلوکار تھے بعد میں غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان مقرر ہوئے۔ انڈیا نے پاکستان کوریاست جموں و کشمیر کو آزاد ہوتے دیکھ کر اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکایا اور پاکستان کو فریق بنا کر عالمی امن کے ٹھیکیداروں کی حمایت اور تعاون حاصل کیا پاکستان نے کن مجبوریوں کے پیش نظر ریاست کے معاملات میں مداخلت کا اقرار کر کے اقوام متحدہ میں فریق بنا یہ راز ہے یو این او نے اگست 1948 میں اپنی پہلی قرارداد منظور کی جس کے مطابق کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنی آزادانہ حق خود ارادیت کے تحت کرنے کاموقعہ دینے کا فیصلہ ہوا ۔ جنوری 1949 میں دوسری قرارداد منظور کی گئی ۔ اگرچہ وقتی طور پور ریاست میں جنگ بندی کروادی گئی اور سیزفائر لائن قائم ہو گئی اس عمل سے ریاست کے لوگوں کے ساٹھ فیصد فتح شدہ علاقے سے ضلعے ریاسی اور اکھنور کے علاوہ ریاست پونچھ کیتحصیل مہنڈر اور آدھی تحصیل حویلی واپس مسلمان مجاہدین کے ہاتھوں سے نکل گیا اقوام متحدہ کی مداخلت سے پہلے مرحلہ پر ریاست دو حصوں میں تقسیم ہوگئی مسلم مجاہدین نے 32 ہزار مربع میل ریاست پر اپنی حکومت قائم کی جس کو آزاد جموں وکشمیر کا نام دیااور باقی پر پرو انڈیا حکومت کانام بھی ریاست جموں وکشمیر ہی دیاجس کا دارالحکومت سرینگر اور گرمائی جموں بنایا گیا جو کے پہلے بھی اسطرح تھاجبکہ آزاد جموں وکشمیر کے نام سے وجود آنے والی حکومت کادارالخلافہ پہلے جنجسل ہل پلندریاور بعد میںمظفرآباد لے جائیا گیاازاد کے نام سے قائم ہونے والی حکومت کے پہلے صدر سردار محمد ابراہم خان ہوئے ، 1962 میں انڈیا اور چین کے درمیان ہونے والی جنگ کے نتیجہ میں اس متنازعہ ریاست کے ایک بڑے حصہ پر چین قابض ہوگیااسوقت یہ ریاست تین حصوں میں تقسیم ہے ۔ 1965میں بھارت کے زیر قبضہ ریاست کو آزادی دلانے کے لیے کوشش کی گئی جس میں کامیابی کے واضح امکانات تھے کہ انڈیا نے ریاست کو اپنے ہاتھوں سے نکلتے دیکھ کر پاکستان پر حملہ کر دیا اور پاکستان کیورکنگ بائونڈری کو عبور کردیا یہ جنگ دونوں ملکوں کے درمیان سترہ روز جاری رہی ادھر پاکستان کے حمائیتی ملکو ں نے ساتھ نہ دیا روس جو کہ بھارت کا اتحادی تھا پاک بھارت جنگ بندی ہوئی تاشقند میں ہونے والے معاہدہ کے احترام میں ازاد کشمیر کی اپنی فورسز کو ایک بار پھر اپن قبضہ میں لیے علاقوں سے نکلنا پڑا جس کے نتیجہ میں پونچھ راجوری نوشہرہ وغیرہ علاقوں سے انڈین فورسز نے مسلمانوں کے ایک بڑی کھیپ کو آزاد کشمیر کی طرف دھکیلا گیا (جاری ہے)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024