آئندہ وزیراعظم اور استعفوں کا آپشن بدستور زیر بحث
فرخ سعید خواجہ
اپوزیشن جماعتوں سمیت بالادست طبقے کی مسلم لیگ (ن) کی مرکزی حکومت کو سینٹ کے الیکشن سے قبل گھر بھجوانے کی کوششیں ناکام ہوئیں، 3 مارچ کو سینٹ کا الیکشن شیڈول الیکشن کمشن جاری کر چکا ہے۔ اسمبلیوں سے استعفوں کا آپشن تاحال عمران خان کی پی ٹی آئی اور آصف زرداری کی پیپلز پارٹی کے پاس موجود ہے لیکن چند ماہ بعد آنے والے عام انتخابات نے اس قسم کے ایڈونچر کی راہ میں بند باندھ دیا ہے۔ تاہم آئندہ وزیر اعظم اوراستعفوں کا آپشن بدستور موجود ہے، عمران خان بلاشبہ جذباتی لیڈر ہیں لیکن ان وزیراعلیٰ پرویز خٹک کہنہ مشق سیاستدان ہیں وہ کسی ایسے کھیل کا حصہ بننے کی راہ میں ہمیشہ حائل رہیں گے جس سے ان پر اسٹیبلشمنٹ کے ٹائوٹ ہونے کا الزام لگے۔ جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف پارٹی کے ووٹ بنک کو اسٹیبلشمنٹ اور عدالتی فیصلوں کے خلاف یکسو کرنے میں مصروف ہیں۔ نواز شریف کے مخالفین کو ہر معاملہ میں نواز شریف کو عدالت میں لے جانے کی روش ترک کر کے اپنی سیاسی صفوں کو درست کرنا چاہئے ۔ جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے وہ ایک ایسا قابل احترام ادارہ ہے جس کی آزادی کیلئے نہ صرف سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں نے وکلاء کے ساتھ مل کر طویل جدوجہد کی ہے،کیا ہی اچھا ہو کہ عدالتیں اپنا کام کریں اور سیاسی رہنمائوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کے دوران کم از کم ریمارکس دیں تو اس سے ماحول کی تلخی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ یوں بھی ججوں کی بجائے ججوں کے فیصلے بولیں تو اچھے اثرات مرتب ہونگے۔
مسلم لیگ ن کی صفوں میں معمولی سی ہلچل ضرور رہی ہے لیکن مجموعی طور پر مسلم لیگ ن نواز شریف کی قیادت میں الیکشن 2018ء میں جانے کیلئے یکسو ہو چکی ہے۔ رواں ہفتے کے دوران میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے وزیراعظم سیکرٹریٹ اسلام آباد اور وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق سے میو گارڈن لاہور کے ریلوے ریسٹ ہائوس میں آن دی ریکارڈ اور آف دی ریکارڈ گفتگو سننے کا اتفاق ہوا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے سینئر صحافی سید سعود ساحر نے چھوٹتے ہی پوچھا کہ آپ کا بیان شائع ہوا ہے کہ مسلم لیگ ن الیکشن 2018ء میں کامیاب ہوئی تو وزیراعظم کا فیصلہ کرے گی گویا شہباز شریف کے نام کا فیصلہ نہیں ہوا۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ایسے فیصلے پارٹیاں الیکشن جیتنے کے بعد پارٹی فورم پر کرتی ہیں۔ اگلا سوال آیا کہ نواز شریف کا کہا پارٹی میں اہمیت رکھتا ہے تو وہ کہہ چکے ہیں کہ آئندہ وزیراعظم اللہ نے موقع دیا تو شہباز شریف ہونگے، شاہد خاقان عباسی نے اپنی بات کا دفاع کیا کہ فیصلہ پارٹی پلیٹ فارم پر ہو گا۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے پچھلے دنوں کہا ہے کہ الیکشن جیتنے کے لئے نواز شریف کی تصویر لگانی پڑتی ہے شہباز شریف یا میری تصویر لگا کر الیکشن نہیں جیتا جا سکتا گویا آپ کی اور شہباز شریف کی کوئی اہمیت نہیں ہے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے وضاحت کی ہمارے لیڈر نواز شریف ہیں، ان کی قیادت میں پارٹی الیکشن میں جائے گی۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے چودھری نثار علی خان اور سینیٹر پرویز رشید کے اختلافات کے حوالے سے سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ بڑی پارٹیوں میں افراد کے درمیان اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔ ان کے برعکس مسلم لیگ ن کے اہم رہنما اور وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کا اس ایشو پر کہنا تھا کہ چودھری نثار اور پرویز رشید کے درمیان تلخی جلد ختم ہو جائے گی۔ ایک صحافی نے کہا کہ پرویز رشید نے دراصل نواز شریف کی آشیرباد سے چودھری نثار پر لفظی حملہ کیا ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے جواب دیا ’’پرویز بھائی سوچنے سمجھنے والی شخصیت ہیں اور اپنی رائے رکھتے ہیں‘‘۔ خواجہ سعد رفیق نے کھل کر کہا کہ مسلم لیگ ن الیکشن جیتے گی اور میاں شہباز شریف ہمارے وزیراعظم ہوں گے۔میاں نواز شریف کے بعد میاں شہباز شریف ہی پارٹی میں پوزیشن اور پنجاب میں حکومتی کارکردگی کے باعث میاں نواز شریف کے فیصلے کو پارٹی کی تائید حاصل ہے۔ آنے والے الیکشن کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ الیکشن 2018ء شفاف ہوں۔ ان سے پوچھا گیا کہ خواہش کے لئے کوشش؟ کیا کوششیں آپ لوگ کر رہے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ بہتری کی کوششیں ہماری طرف سے ہمیشہ جاری رہتی ہیں۔