ہر دہشتگردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی پالیسی سے قیام امن کی راہ ہرگز ہموار نہیں ہوسکتی
اقوام متحدہ کا دہشتگردی کے خاتمہ اور افغان مسئلہ کے حل کیلئے پاکستان کیساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ اور امریکی طرز عمل
اقوام متحدہ نے باور کرایا ہے کہ دہشت گردی کی کوئی سرحد نہیں‘ افغان مسئلہ کے حل کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس سلسلہ میں افغانستان میں تعینات اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے تدامتی یاماموتو نے ایک امریکی نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی سے افغانستان کے ہمسایہ ممالک بھی متاثر ہورہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ افغانستان میں امن مذاکرات اور سیاسی حل کیلئے راہ ہموار کرنے کی کوشش کررہا ہے تاہم اس میں تمام فریقین کی شمولیت ضروری ہے۔ اس کیلئے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ سلامتی کونسل انسداد دہشت گردی کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کابل میں آئندہ ماہ فروری میں ہونیوالے مذاکرات کیلئے اقوام متحدہ کا مشن افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے۔ ان مذاکرات میں تمام معاملات پر بات چیت ہوگی اور پاکستان سمیت خطے کے ممالک ان مذاکرات میں شریک ہونگے۔ انکے بقول طالبان کے ساتھ بات چیت کیلئے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو بھی اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ افغانستان میں امن عمل افغان قیادت کے ماتحت ہی ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی مذاکرات کیلئے باغیوں سے رابطے کی کوشش کی جائے اور انکی بات سنی جائے۔ انکے بقول افغانستان میں پائیدار امن کیلئے کوششوں میں خطے کے مفادات بھی شامل ہونے چاہئیں جس کیلئے خطے کے ممالک کے ساتھ مخلصانہ بات چیت ضروری ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں امن کی مستقل بحالی کی سب سے زیادہ پاکستان کو ضرورت ہے کیونکہ افغانستان کی بدامنی اور وہاں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہونے کے باعث پاکستان ہی سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان نے ہی نیٹو ممالک سے بھی زیادہ قربانیاں دی ہیں جس کے 10 ہزار سکیورٹی اہلکاروں اور افسران سمیت 70 ہزار سے زائد شہری خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کی بھینٹ چڑھے ہیں جبکہ امن و امان کی مخدوش صورتحال میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری رکنے سے پاکستان کی معیشت کو ایک کھرب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ پاکستان کے جانی اور مالی نقصانات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور گزشتہ روز بھی اپر پارہ چنار کے علاقے میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں پانچ خواتین سمیت ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد شہید ہوئے ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی زیادہ تر وارداتیں افغان سرحد عبور کرکے پاکستان آنیوالے دہشت گردوں نے کی ہیں جن کے دہشت گردی کی ہر واردات کے دوران افغانستان میں موجود اپنے سہولت کاروں اور سرپرستوں سے ٹیلی فونک رابطے ہوتے ہیں۔ اسکے ٹھوس ثبوت اور شواہد پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کے پاس موجود ہیں جبکہ بلوچستان میں ’’را‘‘ کا نیٹ ورک چلانے والے بھارتی جاسوس دہشت گرد کلبھوشن یادیو بھی افغانستان کے راستے سے پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی کی نشاندہی کرچکا ہے چنانچہ افغانستان میں مستقل بنیادوں پر امن قائم ہوتا ہے تو یہ سب سے زیادہ پاکستان کیلئے ہی اطمینان بخش صورتحال ہوگی۔ اسی تناظر میں پاکستان افغانستان میں قیام امن کیلئے فکرمند بھی رہتا ہے اور مختلف علاقائی اور عالمی فورموں پر افغان امن عمل پر ہونیوالی کوششوں کا ساتھ بھی دیتا ہے اور ان کوششوں کی کامیابی کا بھی متمنی رہتا ہے۔
امریکہ نے تو نائن الیون کے بعد اپنے ملک کو آئندہ کیلئے ایسی کسی دہشت گردی سے بچانے کی خاطر نیٹو فورسز کے ذریعے افغان دھرتی پر دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ کا آغاز کیا تھا جس میں افغانستان کا تورابورا بنایا گیا تو اسکے ردعمل میں ہونیوالی دہشت گردی اور خودکش حملوں کا پاکستان ہی سب سے زیادہ نشانہ بنا جسے عملاً امریکی فرنٹ لائن اتحادی ہونے کی سزا ملی مگر امریکہ نے نہ صرف اسکے نقصانات کی تلافی نہیں کی بلکہ اسکے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے رعونت کے ساتھ اس سے ڈومور کے تقاضے بھی کئے جاتے رہے اور اسکی خودمختاری کو روندتے ہوئے پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے اور دوسری زمینی اور فضائی کارروائیاں بھی کی جاتی رہیں۔ اس حوالے سے امریکہ کی موجودہ ٹرمپ انتظامیہ نے تو پاکستان کی خودمختاری کو روندنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور افغانستان اور بھارت میں ہونیوالی ہر دہشت گردی کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈالا جاتا رہا جبکہ اصل حقیقت یہی ہے کہ کابل انتظامیہ اور وہاں تعینات امریکی افواج میں افغانستان کی بدامنی پر قابو پانے کی استعداد ہی نہیں ہے جبکہ امریکہ اور بھارت اپنے مفادات کے تحت افغانستان میں خود بھی افغانستان میں امن کی بحالی کی راہ ہموار نہیں ہونے دینا چاہتے۔ بھارت تو افغانستان کی بدامنی سے دہرا فائدہ اٹھاتا ہے جسے اس بدامنی کا پاکستان پر ملبہ ڈالنے کا موقع بھی ملتا ہے اور وہ پاکستان کو دہشت گردی کے ذریعہ عدم استحکام کا شکار کرنے کیلئے بھی افغان سرزمین استعمال کرنے میں کامیاب ہورہا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اس خطے میں بڑی گیم کھیلنے کیلئے بھارت کو علاقے کی تھانیداری سونپ رہا ہے۔ سی پیک کی راہداری کے ناطے چونکہ افغانستان کی علاقائی اہمیت مسلمہ ہے اس لئے امریکہ پاکستان چین اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کے مقصد کے تحت افغانستان میں مستقل طور پر امن و امان کی بحالی نہیں چاہتا ہے۔ اسی نیت سے ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے آگے اپنے مطالبات کے ڈھیر لگائے اور افغانستان میں قیام امن کیلئے اس سے اپنی ہی سرزمین پر ڈورمور کے پے درپے تقاضے کئے۔ بالخصوص حقانی نیٹ ورک کیخلاف فیصلہ کن اپریشن کے احکام صادر کئے جبکہ پاکستان امریکی ڈکٹیشن کے بغیر بھی اپنے مفادات کے تحت دہشت گردوں کیخلاف بلاامتیاز اور سخت اپریشن جاری رکھے ہوئے ہے جس سے اسے جہاں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں‘ وہیں ردعمل میں اسے دہشت گردی اور خودکش حملوں کی صورت میں سنگین خمیازہ بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اسکے باوجود ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے پہلے اسکی امداد میں کٹوتی کرنے اور اس کا فرنٹ لائن اتحادی کا سٹیٹس ختم کرنے کی دھمکیاں دیں اور پھر ان دھمکیوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے پاکستان کی فوجی امداد بند کردی جبکہ بھارت کو افغانستان کے علاوہ پاکستان کی نگرانی کا بھی کردار سونپ کر اسکی سلامتی کیلئے مزید خطرات پیدا کردیئے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آج دہشت گردی ایک بڑا عالمی مسئلہ بن چکی ہے جبکہ دہشت گردی کے فروغ میں امریکی پالیسیوں کا بھی عمل دخل ہے جن کی بنیاد پر وائٹ ہائوس اور پینٹاگون کی جانب سے القاعدہ اور داعش سمیت مختلف دہشت گرد تنظیموں کی بنیاد رکھی گئی اور انکی سرپرستی بھی کی گئی مگر دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی ہی ساختہ ان دہشت گرد تنظیموں کی دہشت گردی کا ملبہ اسلام اور پاکستان پر ڈالنے کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا گیا۔ اس صورتحال میں اقوام متحدہ کے مندوب نے بجا طور پر باور کرایا ہے کہ دہشت گردی کی کوئی سرحد نہیں جبکہ پاکستان کے مشیر قومی سلامتی جنرل (ر) ناصر جنجوعہ نے بھی گزشتہ روز یہی باور کرایا ہے کہ آج دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے جس کا صرف پاکستان کے ساتھ ناطہ جوڑنا مناسب نہیں۔ اگر امریکہ کے نائٹ کلبوں اور دوسرے ثقافتی مقامات پر خودکش حملے اور دہشت گردی کی دوسری وارداتیں ہورہی ہیں تو یہ امریکی معاشرے کی بے راہروی کا ردعمل ہے‘ اسی طرح فرانس‘ برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک میں ہونیوالی دہشت گردی کا بھی اپنا پس منظر ہے مگر اسکی آڑ میں مسلم دنیا بالخصوص پاکستان پر کمبختی لانے کی سازشیں کی جاتی ہیں جس میں ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ کا زیادہ عمل دخل ہے۔ اسی تناظر میں امریکی وزیر دفاع ریکس ٹلرسن نے گزشتہ روز بھی یہ کہہ کر بالواسطہ پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنیوالوں کے ساتھ سختی سے نمٹیں گے۔
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں نے افغانستان میں ہی اپنے محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں جس کی نشاندہی پر پاکستان کو خود دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فضائی کارروائی کرنا پڑی تھی جبکہ کابل انتظامیہ اور واشنگٹن کی جانب سے دانستہ طور پر افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کارروائی نہیں کی جاتی کیونکہ یہ ٹھکانے پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔ اگر امریکہ افغانستان میں فی الواقع امن کی بحالی چاہتا ہے تو وہ طالبان سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں کو امن مذاکرات کی راہ پر لا سکتا ہے جیسا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی یاماموتو نے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ حقیقی مذاکرات کیلئے باغیوں سے بھی رابطے کرنا ضروری ہیں اور اسی طرح مذاکرات کے عمل میں تمام فریقین کی شمولیت ضروری ہے مگر ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان سے مذاکرات کا باب ہی بند کردیا ہے جس کی پیروی کرتے ہوئے افغان حکومت نے بھی طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات مسترد کردیئے ہیں۔ اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں امن کی مستقل بحالی میں قطعاً سنجیدہ اور مخلص نہیں۔ اگر مذاکرات کے عمل میں امریکہ کا اخلاص شامل حال ہو تو اس کیلئے وہ پاکستان کی معاونت حاصل کرکے اسکے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کر سکتا ہے جس کی روشنی میں افغان دھرتی پر موجود دہشت گردوں کے تمام ٹھکانوں پر مؤثر کارروائی کرکے اس خطے میں پھلتی پھولتی دہشت گردی کی جڑیں اکھاڑی جاسکتی ہیں۔ تاہم امریکہ نے اپنے مفادات کے تحت بھارت کو علاقے کی تھانیداری سونپے رکھی اور کابل اور دہلی کی پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی تو دہشت گردی کے ناسور سے خلاصی ملنے کے بجائے اسکی جڑیں مزید مضبوط ہو جائیں گی جس کے نتیجہ میں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی مستقل طور پر خطرات کی زد میں رہے گی۔ اس صورتحال میں بہتر یہی ہے کہ دہشت گردی سے متعلق تمام حقائق کا ادراک کرکے اس ناسور سے نجات کی کوئی اجتماعی حکمت عملی طے کی جائے کیونکہ دہشت گردی ہی آج عالمی اور علاقائی امن و سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اگر ہر دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی سوچ اور پالیسی برقرار رکھی گئی تو دہشت گردوں کو دنیا بھر میں اپنی کارروائیوں کیلئے نادر مواقع ملتے ہی رہیں گے۔