جمعرات ‘ 14؍ جمادی الاوّل‘1439 ھ‘ یکم فروری 2018ء
انتہاپسندوں کا خوف، گائے کے گوشت پر قتل عام۔ بھارتی مسلمانوں کو اپنے لئے علیحدہ وطن حاصل کرنا چاہئے۔ نائب مفتی اعظم کشمیر۔
یہ بات یہ خیال کسی نہ کسی شکل میں بھارت میں آباد مسلمانوں کے ذہن میں موجود ہے مگر اس کا اظہار وہ نہیں کر سکتے۔ اس وقت بھارت میں مسلمان ہندوئوں کے بعد سب سے بڑی اقلیت ہے۔ اس کے باوجود بھارت میں خوف وہراس تلے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کبھی مذہب کے نام پر، کبھی لومیرج کے نام پر اور کبھی گائے کے گوشت کے حوالے سے ان کی زندگی ہر لمحہ خوف کے سائے تلے بسر ہوتی ہے۔ یہ وہی حالات ہیں جن سے تحفظ کے لئے مسلم لیگ نے قائداعظم کی قیادت میں علامہ اقبال کے خواب کے مطابق علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا تھا۔ اگرچہ اس وقت بھارت میں سب سے زیادہ ظلم و ستم کشمیر میں ہو رہا ہے کیونکہ یہ واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے نائب مفتی اعظم نے پسماندہ کچلے ہوئے مظلوم ظلم و ستم کا شکار 20 کروڑ سے زیادہ بھارت میں آباد مسلمانوں کو پاکستان کی طرح ایک علیحدہ ریاست کے قیام کی راہ دکھائی ہے۔ وہ کھل کر بولے اب ان کے خلاف جو طوفان بھارت میں برپا ہو گا وہ بھی دیکھنے والا ہو گا۔ انتہا پسند ہندو تنظیمیں اس پر پورے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب کی آگ کو مزید ہوا دیں گی۔
یہ تنظیمیں خود باقی مسلمانوں کو بھی اس بات پر آمادہ ہونے پر مجبور کر رہی ہیں کیونکہ ان کا مظالم سے تنگ آ کر بالآخر بھارتی مسلمان ایک بار پھر بٹ کے رہے گا ہندوستان کا نعرہ لگانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یہ انتہا پسند ہندو جب ہندو ہندو ہندوستان کے نعرے لگائیں گے تو جواب میں انہیں پھول تو پیش نہیں ہو سکتے۔
٭…٭…٭…٭
56 سو کنال زمین شریعت کے مطابق بانٹی جائے۔ سپریم کورٹ نے 100 سال پرانے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔
یہ زن، زر اور زمین والا معاملہ ہی عجیب ہے۔ ان کی وجہ سے کتنے لوگ جان سے گزر جاتے ہیں۔ زمین پر قبضے کی خواہش لے کر نجانے کتنے لوگ قبرستان آباد کر لیتے۔ اب عدالت نے جو یہ ایک صدی پرانے کیس کا فیصلہ سنایا ہے اس کے فیصلے کی آس لئے نجانے کتنے چراغ گل ہو چکے ہوں گے۔ خیرپور ٹامیوالی میں اس زمین کی ملکیت کے تنازعہ کا حل تو آم کے پیڑ والی مثال بن گیا ہے کہ آم کا پودا لگاتا دادا ہے اور پھل اس کے پوتے کھاتے ہیں۔ اب وارثین جائیداد کو شکر ادا کرنا چاہئے کہ فیصلہ شریعت کے مطابق ہوا۔ کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے ورنہ کیا پتہ پھر یہ مقدمہ ایک صدی لے کر بھی حل نہ ہو ۔ اور عدالت میں جانے والے قبرستان پہنچ جائیں۔
بے شک یہ مقدمہ قیام پاکستان سے قبل کا ہے۔ مگر کیا یہ ہمارے عدالتی نظام پر سوالیہ نشان نہیں۔ کیا یہ ہمارے انصاف کی فراہمی کے دعوئوں کا پول نہیں کھول رہا۔ ایک دیوانی مقدمہ نسلوں تک چلتا ہے تو فوجداری مقدمات کی حالت اس سے بھی گئی گزری ہے۔ ہمارے ہاں لوگ اس طویل عدالتی عمل اور انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے قانون کے شاکی ہیں۔ کس پہ الزام دھریں مقدر پر یا نظام پر ہر طرف سے مایوسی نظر آتی ہے۔ اسی لئے تو مقدموں کے مارے لوگ…’’اللہ میاں تھلے آ‘‘ کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
سندھ میں ڈاکٹر عاصم کو ہائر ایجوکیشن کمشن کا چیئرمین بنا دیا گیا۔
یہ ہوتا ہے صلہ جو سیاسی جماعتوں کے سربراہ اپنے مخلص ساتھیوں میں ریوڑی کی طرح بانٹ دیتے ہیں۔ اب کوئی ان سے پوچھنے والا تو ہوتا ہی نہیں کہ جناب ایک ایسی شخصیت پر یہ نظر عنایت کیوں جس پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں۔ جو جیل بھی گئے۔ ابھی تک پیشیاں بھی بھگت رہیں ہے۔ ابھی انہیں بریت نہیں ملی، بیماری کی وجہ سے اس وقت پیرول پر ہیں اور علاج معالجے کے لئے اندرون ملک اور بیرون ملک سفر پہ رہتے ہیں۔ ان کا علاج بھی خاصہ مہنگا بیرون ملک ہو رہا ہے۔ اب کہیں ان کا علاج بھی حکومت سندھ نے اپنے خرچ پر کرانے کے لئے توانہیں یہ عہدہ نہیں دیا۔ یوں ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے گا۔ سندھ میں یہ عجیب اندھیر نگری ہے۔
سارا نظام ہی ایک شخص کے احکامات کے تابع چل رہا ہے۔ شہر کراچی اور حیدرآباد میں پہلے لندن والے بھوت کی جادوگری چلتی تھی۔ اندرون سندھ دیہات میں چھوٹے شہروں میں زرداروں کی عملداری ہے۔ قانون، انصاف، میرٹ، حقوق سب ان کے سامنے خاموش ہیں۔ ہر طرف جان کی امان پائوں تو عرض کروں والی حالت ہے۔ سندھ حکومت پہلے بڑے شاہ صاحب کے پاس تھی اب چھوٹے شاہ صاحب کے پاس ہے۔ یہ دونوں اپنے منصب سے زیادہ زرداری جی کی ناز برداریوں میں لگے رہتے ہیں تو عوام جائیں بھاڑ میں، ان کو کون پوچھتا ہے۔
٭…٭…٭…٭
دالنبدین بلوچستان میں داڑھی کے ڈیزائن بنانے پر پابندی لگا دی گئی۔
ایسی پابندی تو سعودی عرب میں بھی نہیں۔ جیتی دالنبدین میں لگائی گئی ہے۔ ویسے کیا یہ کم تھا کہ لوگ فیشن سے ہی سہی کم از کم داڑھی تو رکھ رہے تھے۔ ویسے ہی جیسے حجاب یا عبایا کو دیکھ لیں یہ پردہ کے لئے ہے مگر اسے بھی فیشن کے وہ نت نئے رنگ دیئے گئے ہیں کہ اب یہ پردے سے زیادہ فیشن کا رنگ اختیار کر چکے ہیں۔ فیشن ڈیزائنروں کے نت نئے نمونے کے یہ حجاب اور عبایا دنیا بھر میں آئے روز نمائش کے لئے پیش ہوتے ہیں۔ ان کی کیٹ واک ہوتی ہے۔ یہ ایک بڑی انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ مگر کیا فیشن اور جدت کے نام پر حجاب یا عبایا پر پابندی کا سوچا جا سکتا ہے۔
دنیا بھر میں داڑھی رکھنے کا چلن عام ہو رہا ہے خاص طور پر مسلم نوجوان اس کی طرف راغب ہیں۔ اگر چند فی صد چلیں فیشن کے طور پر ہی اس کی تراش خراش میں جدت لاتے ہیں تو اس کا حل یہ نہیں ہے۔ پہلے طالبان سوچ رکھنے والوں نے افغانستان اور سوات وغیرہ بھی یہی کوشش کی تھی وہ اپنی جگہ مگر دالبندین میں یہ سرکاری طور پر پابندی کا حکم نامہ چہ معنی دارد۔ پورا عرب وعجم خوبصورت سٹائل میں داڑھی رکھتا ہے جو اچھی بھی لگتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭