افغان طالبان کے دف بجانے کے دن آگئے کہ ان کو دہشت گردوں کی صف سے نکال کر مسلح باغی ہونے کی سند عطا ہوئی ہے باغی لفظ بذات خود ترقی پذیر ممالک کے لئے سحر انگیز ہے کہ وہ ظلم و ستم اور جابرانہ رویوں کے سامنے تن کر کھڑے ہونے والے بہادر کا استعارہ سمجھا جاتا ہے ایسے میں افغان طالبان مسلح باغی قرار دے دیئے جائیں جو ظلم کے زمزنوں میں پہاڑوں کے اندر پناہ گاہیں بنا کر اپنے دانے دنکے کے لئے قافلے لوٹتے ہوں اور پھر طاقت کو اپنے ہاتھ میں لیتے لیتے اس کا استعمال اپنے طریقے سے کرتے ہوئے ریاست کے ادارے کی نفی کرنے لگیں، یہ سب مسلح بغاوت کے زمرے میں آتا ہے دہشت گردی میں ہر گز نہیں! نیٹو فوج پر حملے، ان کی رسد پر قابضہ گویا امریکہ برس ہا برس کی جنگ نہ جیت سکنے کی شرمندگی میں دہشت گردی کے بارے میں اپنا موقف تبدیل کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتا وائٹ ہائوس کے ترجمان ایرک شلز کے نزدیک اپنی جنگ سمیٹنے کے لئے بات چیت یعنی ڈائیلاگ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا گو یا امریکی فوجی بوبر گڈال کے بدلے پانچ افغان طالبان کمانڈروں کی رہائی کا اعلان ہمیں یہ باور کروانے کے مترادف ضرور ہے کہ ہمارے فوجی ہوں یا شہری، ڈرئون حملوں میں مارے جانے والے شمالی وزیرستان کے بے گناہ شہری، بچے عورتیں ہوں یا کہ پہاڑوں کے مکین، پشاور سکول کے بچے ہوں کہ حفاظتی اداروں کے جانباز! ان سب کے لہو کی قیمت ایک دن کی اشک باری کے سوا کچھ نہیں۔ امن کی آشا کی راگ الاپنے والے جب تک ذاتی مفاد کے طمع کی پاسداری سے دستبردار نہیں ہوتے ہم عالمی سطح پر بے توقیری کی لعنت سے بچ نہیں سکتے۔ آج افغان طالبان مسلح باغی اور داعش دہشت گرد تاوان لینے والی تنظیم کے طور پر ڈیکلئیر کی جا چکی ہیں۔ اور وائٹ ہائوس کے ترجمان نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ نہ تو تاوان دیتے ہیں اور نہ ہی ان سے رعایت کرتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری اداروں کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ وائٹ ہائوس کا یہ بیان اس وقت منظر پر آیا جب خود پاکستانی میڈیا اس تنظیم کی وال چاکنگ دکھا رہا ہے۔ کل تک ہم افغانستان کو بویا کاٹ رہے تھے کیا آنے والے کل میں داعش کی درانتی سے کاٹے جانے کا سامان ہو رہا ہے؟ کیونکہ وائٹ ہائوس کا بیان کہ ’’نہ ان سے رعایت کرتے ہیں‘‘ کسی طور بھی ایک بڑے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں اگر ہنوز ہماری حکومتیں اور عسکری قوتیں مل کر بھی ڈرئون حملوں سے نجات حاصل نہیں کر سکیں بلکہ امریکہ کی جی حضوری میں ہر نئی آنے والی حکومت نے پچھلی حکومت کے ریکارڈ توڑنے کو وفاداری گردانا تو بحیثیت پاکستانی یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ دہائیوں پر محیط جنگ میں اگر امریکہ کو افغانستان سے کچھ حاصل نہیں ہوا تو نریندر مودی کے ساتھ مصافحہ کے باوجود داعش کو آڑ بتا کر پاکستان کے سر پر خطرے کی گھنٹی بجانے، اقتصادی و معاشی رکاوٹوں کے باوجود۔ اگر ڈرون حملوں سے بڑھ کر بھی ’’عمل داری‘‘ کی حماقت امریکہ کر لیتا ہے تو اسے یہاں سے بھی منہ کی ہی کھانی پڑے گی۔ ہاں اس خلفشاری و انتشار اور عدم استحکام کا خمیازہ یہ قوم صدیوں بھگتے گی!
امریکہ صدر باراک اوباما نے اپنے دورہ بھارت میں انڈیا کے ساتھ سول معاشی اقتصادی معاہدوں کے ساتھ دفاعی معاہدوں میں پیش رفت کا عندیہ دیتے ہوئے ایٹمی توانائی دفاع اور ماحولیاتی تبدیلی کے معاہدوں میں کثیر سرمایہ کاری کے علاوہ چار ارب ڈالر کے تجارتی قرضوں کے ساتھ انڈیا کو سلامتی کونسل کی رکنیت کے خواب میں ہی مبتلا کیا۔ ایسے میں پاکستان کو سرا سر نظر انداز کر کے پیٹھ دکھانا دراصل ہماری ’’جھولی چک‘‘ سیاسی قیادت کے لئے واضح پیغام ہے جسے شاید یہ سمجھنا ہی نہیں چاہتی یا پھر کاروباری انتظامیہ کی ترجیحات میں استحکام پاکستان ہے ہی نہیں! ہمہ وقت سڑکوں کی توڑ پھور کرنے والوں کے نزدیک سیاسی، معاشی، دفاعی شستگی شاید کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔ خدا جانے ضیاالحق کی باقیات کب تک پاکستان کے روشن مستقبل کو چاٹتی رہے گی کیونکہ عقیدت اور فرقے کے نام پر تقسیم و استحصال کی پرانی پگڈنڈی پر اب عالمی ایجنڈے کی ہمراہی میں نئی ’’درانتی‘‘ چلنے کا سامان پیدا کیا جا رہا ہے ہماری سیاسی قیادت اور سوچنے والی ایجنسیاں ظاہری سطح پر نظر آنے والے امریکہ بھارت معاہدوں کا رونا چھوڑ کر معاہدوں میں بین السطور روح کو سمجھنے کی کوشش کریں! ان کے تئیں امریکہ کو اپنی مصنوعات کے لئے بھارت جیسے بڑی منڈی درکار ہے۔ کچھ لو اور کچھ دو کے کلئیے پر اتنی نواز شات ہوئی ہیں! یعنی امریکہ مشرق کی ابھرتی ہوئی بڑی طاقت کے ساتھ صرف اپنے کاسمیٹکس فروخت کرنے کے دھندے کے لئے اپنے صدر کا دورہ کروائے گا جبکہ امریکہ کی تقریباََ اسی فیصد کمپیوٹر انڈسٹری بھارت کی مٹھی میں صرف اسلئے ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں پیسہ بچانے والے روپیہ ہار جانے کی فکر نہیں کرتے لیکن یہ حقیقت ہے کہ کمیونیکیشن انڈسٹری بھارتی سر زمین ہی سے امریکی سرمایے کی حفاظت کر رہی ہے یہ ایسے خطرے کی الجھی گھتیاں ہیں جنہیں ہمارے ارباب اقتدار سلجھانا نہیں چاہتے یا پھر پاکستان کے حقیقی حکمرانوں کو بھی راستے کی کھائی دکھائی نہیں دے رہی انہیں ہر صورت اپنے ابلاغی اداروں کے ساتھ ساتھ پالیسی ساز اداروں کو ہمہ تن کرنا ہوگا کہ امریک صدر باراک اوباما کے دورہ بھارت کے فوراََ بعد وائٹ ہائوس کا افغان طالبان کے حوالے سے بیان دراصل کس کے لئے وارننگ ہے اور آخر افغانستان سے بھاگ کر پاکستانی علاقوں میں چھپنے والوں کو بھی تو مسلح باغی کی سند ملی ہے۔ تو پھر آخر ہم کس کی جنگ لڑ رہے ہیں؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38