رحمة اللعالمینﷺ کی تعلیمات اور عصر حاضر
پروفیسر محمد یوسف عرفان
خالق کائنات نے محمد مصطفیٰ کو تمام جہانوں کے لئے رحمة اللعالمین بنا کر بھیجا ہے۔ سائنس کی ترقی نے آج جب ہماری وسیع و عریض مادی دنیا کو ایک چھوٹے سے عالمی گاو¿ں Global Village میں تبدیل کر دیا ہے یہ تمام فاصلے اور مکالمے سمٹ کر ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل اور سیٹلائٹ میں سمو گئے ہیں۔ آج کا انسان چاند کو تسخیر کر رہا ہے مگر دنیا کے عالمی گاو¿ں میں باہمی ادب احترام اور بھائی چارے سے رہنے کو تیار نہیں ۔گو ترقی یافتہ اقوام نے دنیا میں غربت اور نفرت کے خاتمے کے لئے اقوام متحدہ اور ورلڈ بنک جیسے عالمی ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ ترقی یافتہ عالمی برادری نے ورلڈ آرڈر کے تحت رواداری کے حصول کے لئے بین المذاہب ہم آہنگی اور عالمی صوفزم کا علم بھی بلند کر رکھا ہے مگر اس کے باوجود دنیا میں جنگ و جدل، لوٹ مار اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا راج ہے۔ ظہور اسلام سے قبل جس عرب میںطاقت کا راج تھا اور ابوجہل ، ابو لہب سمیت جہاں سب عدل و انصاف سے نابلد تھے۔ رسول خدا نے قلیل مدت میں اس وقت کی ظالم ، جابر اور جارح عالمی طاقتوں قیصر و کسریٰ کو ختم کیا اور دین اسلام کو عالمی طاقت بنایا۔آپ نے امن اور عدل و انصاف پر مبنی عالمی معاشرے کے قیام کے لئے عالمی مکالمہ World Dialogue کی روایت قائم کی اور اس وقت کی عالمی طاقتوں قیصروکسریٰ کو خطوط لکھے۔ آپ نے فتح مکہ کے نشے میں قتل عام کا حکم نہیں دیا بلکہ عام معافی اور امن وامان کے قیام اور نفاذ کا اعلان کیا۔ میثاق مدینہ بھی مسلم و غیر مسلم کے مساوی ریاستی حقوق و فرائض کا میگنا کارٹا ہے جس کا کلیدی نکتہ ریاستی سلامتی اور بنیادی انسانی حقوق و فرائض کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ رحمة اللعالمین کی یہی تعلیمات ہیں جن کو عالم اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں مقدم رکھا گیا ہے۔ برصغیر پاک وہند میں سلطان التمش اور جہانگیر کی زنجیر عدل اور قائداعظم کی ریاستی پالیسی نے یہی کام سرانجام دیا ہے۔ عصر حاضر میں عدل و انصاف درگزر اور مزاحمتی جہاد پالیسی کا بہترین نمونہ افغان مجاہدین کی طالبان حکومت ہے۔
چودہ سو سال سے آج تک تمام عالم اسلام کیلئے قرآن و سنت میںرحمة اللعالمین کی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ آپ نے خطبہ حجة الوداع میں فرمایا کہ قرآن و سنت سے مضبوط وابستگی قائم رکھنا یہ تمہیں گمراہی سے بچائے گی۔خطبہ حجة الوداع اور میثاق مدینہ مستند ترین سنت رسول ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے خطبہ حجة الوداع کو ”انسانیت کا منشور اعظم“ کہا ہے جس میں انسانی مساوات، ملی وحدت اخوت،عالمی معیشت و معاشرے کے بہترین اصول رقم ہیں۔ حضرت بلالؓ سیاہ حبشی تھے مگر وہ تمام اصحاب کبار کے لئے بھی سیدنا بلال یعنی تمام مسلمانوں کے لئے آقا اور محترم ہیں۔ مہاجرین و انصار بھائی چارے کی عمدہ مثال ہے جو رحمة اللعالمین کے علم تلے وحدت و اخوت کا پیکر تھے۔ غزوہ بدر ملی وحدت و اخوت اور غیر مسلم اتحادی برادری کے درمیان معرکہ عظیم تھا۔ رحمة اللعالمین اور اصحاب بدر کے خونی، نسلی اور لسانی رشتہ دار کفار مکہ میں شامل تھے۔ پہلے خلیفہ راشد کے بیٹے کفار مکہ کے اتحادی تھے۔ ملی وحدت و اخوت رحمة اللعالمین کے ساتھ کامل وابستگی اور وفاداری سے مشروط ہے جو اسلام کا طرہ امتیاز ہے۔
رحمة اللعالمین کی معاشی پالیسی کی بنیاد سود کا خاتمہ اور دولت کی گردش ہے جس میں مال کو بینک میں جمع کرنے کے بجائے تجارت کی گردش میں رکھنا لازم ہے اور دولت کی یہی مالیاتی گردش معاشرے کو غربت اور مہنگائی سے بچاتی ہے۔ آپ نے خواتین کے حقوق و فرائض کو مرد عورت کی مشترکہ ذمہ داری سے بندھن میں باندھا ہے۔ رحمة اللعالمین کی تعلیمات کے حوالے سے ایک فلسطینی یہودی کا قول عربی رسالہ ”الفیصل“ میں رقم تھا کہ رحمة اللعالمین مسلمانوں ہر سال میلاد النبی کے موقع پر مسلمانوں کی زبان پر زندہ ہوتے ہیں۔ اگر امت مسلمہ رحمة اللعالمین کی تعلیمات کو اپنے فکرو عمل کا حصہ بنا لیتی تو ہر مسلمان محمد مصطفیٰ کا عملی نمونہ ہوتے اور دنیا میں اولاد آدم ایک ہزار سال پہلے مسلمان ہو چکی ہوتی۔ امت مسلمہ یعنی مسلمانوں کی یہی دوغلی پالیسی ہے کہ جس کو حکیم الامت علامہ اقبال نے اپنی فارسی نعت میں یوں بیان کیا ہے کہ اس وقت امت مسلمہ عرب عجم، کالے، گورے، امیر غریب حاکم محکوم ذات پات، رنگ، نسل، زبان صوبہ علاقہ، قبیلہ، برادری اور کلچر میں پھنسی ہوئی ہے۔ قائداعظم نے 21 مارچ 1948 ءکو بمقام ڈھاکہ بجا فرمایا تھا کہ ” آخریہ کہنے کا کیا فائدہ ہے کہ ہم بنگالی، سندھی، پٹھان (پختون، بلوچی) یا پنجابی ہیں۔ نہیں ہم سب مسلمان ہیں ۔ اسلام نے ہمیں یہی سکھایا ہے اور مجھے اس پر یقین ہے آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ آپ اور جو بھی ہوں، آپ مسلماں ہیں۔“ اس وقت پاکستان، امت مسلمہ، امریکہ ، یورپ، افریقہ و بھارت بلکہ ساری اولاد آدم نسلی، لسانی بیماری میں مبتلا ہے امریکہ میں کالے گورے کا امتیاز آج بھی موجود ہے مغرب طاقت، تہذیب و تمدن اور کلچر کے احساس برتری کی بیماری کا شکار ہے۔ یہودی ”خدا کی منتخب نسل“ اور ہندو برہمن بذات خدا ہونے کے زعم میں رہتے ہیں۔ رحمة اللعالمین کی تعلیمات مسلم، غیر مسلم بلکہ ساری اولاد آدم اور کائنات کے لئے رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔بھارت میں کروڑوں اچھوت اقوام کے عظیم قائد ڈاکٹر امبیدکر کا بیان ہے کہ رحمة اللعالمین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر عالمی اور علاقائی یعنی ہندوستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ دیگر مذاہب کی نسبت اسلام آج بھی نجات دہندہ مذہب ہے جو انسانی مساوات اور قومی وحدت و اخوت کا مذہب ہے۔ رحمة اللعالمین کی تعلیمات کے تناظر میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے ہندی مسلمانوں کی حالت زار کو یوں بیان کیا ہے کہ:
سطوت ِ توحید قائم جن نمازوں پر ہوئی
وہ نمازیں ہند میں نذر برہمن ہو گئیں