کالعدم ٹی ٹی پی کا ملک کے اندر دوبارہ حملوں کا اعلان و آغاز
کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے دو روز قبل حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ختم کرنے اور ملک میں دہشت گردی کی کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا جو ریاستی‘ حکومتی اتھارٹی کو براہ راست چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ اس سلسلہ میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان کی جانب سے یہ بھی باور کرایا گیا کہ ہم نے اب تک صبر سے کام لیا ہے مگر ہم پر حملے کئے گئے‘ اب ہمارے انتقامی حملے بھی دیکھیں۔ اب کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ روز کوئٹہ کے علاقے بلیری میں پولیو ورکرز کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کی وین پر اس وقت خودکش حملہ کیا گیا جب وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کیلئے روانہ ہونے والے تھے۔ یہ خودکش حملہ ایک رکشے کے ذریعے کیا گیا جس میں پولیس کے بقول خودکش حملہ آور 325 کلو دھماکہ خیز مواد کے ساتھ موجود تھا۔ پولیس ذرائع کے مطابق پولیس وین جیسے ہی روانہ ہونے لگی‘ رکشہ اس سے ٹکرا گیا جس سے زوردار دھماکہ ہوا اور ایک پولیس اہلکار اور ایک بچے سمیت تین افراد موقع پر جاں بحق ہو گئے جبکہ متعدد پولیس اہلکاروں سمیت 27 افراد اس خودکش حملے میں زخمی ہوئے جن میں سے تین پولیس اہلکاروں کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔
کالعدم ٹی ٹی پی کی اس دھمکی کے بعد سکیورٹی فورسز مزید الرٹ ہو گئی تھیں اور انہوں نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر اپریشن کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ اس سلسلہ میں منگل کے روز فورسز نے بلوچستان میں خفیہ معلومات کی بنیاد پر کئے گئے اپریشن میں دس دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا جبکہ ایک دہشت گرد کو زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق اس اپریشن میں ہلاک ہونیوالے دہشت گرد فورسز پر حملوں میں ملوث تھے۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق ہلاک ہونیوالے ملزمان دیسی ساختہ بم نصب کرنے اور سکیورٹی فورسز کے علاوہ عام شہریوں پر بھی فائرنگ کے واقعات میں ملوث تھے جن کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کیلئے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر اپریشن کیا گیا۔ یہ اپریشن بارہ سے چودہ دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر انکے ٹھکانے کی نشاندہی کے بعد کیا گیا۔ اس اپریشن کے دوران دو دہشت گرد فرار ہونے میں بھی کامیاب ہوئے جن کا سراغ لگانے کیلئے علاقے میں اپریشن جاری ہے۔ اس اپریشن میں دہشت گردوں کے ٹھکانے سے دیسی ساختہ بم سمیت اسلحہ اور گولہ بارود کا بھاری ذخیرہ بھی برآمد کیا گیا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا وجود دو دہائی قبل امریکی نائن الیون کے بعد امریکی نیٹو فورسز کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر شروع کی گئی افغان جنگ میں پاکستان کے امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرنے اور نیٹو افواج کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کے ردعمل میں پاکستان کی سرزمین پر خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع کرکے عمل میں لایا گیاتھا۔ امریکہ کی جانب سے طالبان حکومت کے خاتمہ اور حامد کرزئی کی کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کے ردعمل میں طالبان نے افغان دھرتی پر نیٹو فورسز کی مزاحمت کا سلسلہ شروع کرکے تحریک طالبان افغانستان کی بنیاد رکھی اور جب پاکستان نے افغان سرزمین پر فضائی اور زمینی حملوں کیلئے نیٹو فورسز کو اپنے چار ایئربیسز اور دوسری لاجسٹک سہولتیں فراہم کیں تو افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان آنیوالے طالبان نے افغان طالبان کی قیادت کے ایما پر خود کو تحریک طالبان پاکستان کے پلیٹ فارم پر منظم کیا اور یہاں خودکش حملوں سمیت دہشت گردی کی وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ہماری سکیورٹی فورسز کے جوان اور سکیورٹی اداروں کی عمارات و تنصیبات بطور خاص ان کا ہدف تھیں۔ انہوں نے ملک کے قبائلی اور شمالی علاقہ جات بشمول شمالی اور جنوبی وزیرستان میں اپنے ٹھکانے بھی بنا لئے جہاں سے وہ حکومتی ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتوں کیلئے روانہ ہوتے رہے۔ ان وارداتوں میں سکیورٹی فورسز کے دس ہزار جوانوں اور افسران سمیت ملک کے 70 ہزار سے زائد شہریوں کی شہادتیں ہوئیں اور ارب ہا روپے کی املاک کا بھی نقصان ہوا جبکہ زخمی ہو کر مستقل اپاہج بننے والے ہمارے شہریوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اس طرح پاکستان کو پرائی آگ میں کود کر جانی اور مالی ناقابل تلافی نقصانات اٹھانا پڑے اور ہمارے اداروں کے مرتب کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق مجموعی طور پر یہ نقصانات نیٹو فورسز کو ہونیوالے نقصانات سے بھی زیادہ تھے جن کی تلافی کیلئے امریکہ نے اپنے تشکیل دیئے گئے کولیشن سپورٹ فنڈ سے پاکستان کی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق معاونت کی اور اس پر بھی پاکستان سے ’’ڈومور‘‘ کے مسلسل تقاضے کئے جاتے رہے۔
2012ء میں نیٹو ممالک کی لزبن میں منعقدہ سربراہی کانفرنس کے فیصلہ کے تحت نیٹو ممالک نے اپنی افواج کا غالب حصہ 2015ء تک افغانستان سے بحفاظت واپس بلوالیا تھا اور پھر امریکہ نے پاکستان کی معاونت سے طالبان قیادتوں کے ساتھ امن مذاکرات کرکے اپنی باقیماندہ افواج بھی طالبان کے ساتھ طے پانے والے معاہدہ کی بنیاد پر گزشتہ سال اگست تک واپس بلوالیں جس کے بعد طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہوئی اور یہ مرحلہ بغیر کسی مزاحمت کے دو ہفتوں کے اندر اندر مکمل ہو گیا۔ پاکستان نے اپنی اور پورے خطے کی سلامتی کے تقاضوں کے تحت افغانستان میں قیام امن کیلئے علاقائی اور عالمی فورموں پر مؤثر کردار ادا کیا جو افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے ایک سال بعد بھی جاری ہے اور گزشتہ روز بھی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حناربانی کھر نے کابل میں افغان وزیر خارجہ‘ نائب وزیراعظم اور وزیر تجارت سمیت افغان حکام سے دوطرفہ سکیورٹی معاملات پر مذاکرات کئے ہیں جبکہ پاکستان افغانستان کو درپیش مالی اور اقتصادی مشکلات سے نکالنے کیلئے بھی عالمی برادری سے کابل حکومت کی معاونت کی تسلسل کے ساتھ اپیل کررہا ہے۔
اس تناظر میں تو ہمیں طالبان حکومت کی تشکیل کے بعد افغانستان کی جانب سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آنا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے کابل انتظامیہ نے نہ صرف طالبان پاکستان کی دہشت گردی کا سلسلہ روکنے کے معاملہ میں کوئی کردار ادا نہ کیا بلکہ کابل انتظامیہ کی آشیرباد سے دہشت گردوں نے افغانستان کے اندر سے پاکستان کی چیک پوسٹوں اور شہری آبادیوں پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ بھی شروع کر دیا چنانچہ افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہونے کے بعد اب تک کابل انتظامیہ اور طالبان قیادتوں کی پاکستان کے ساتھ مخاصمت ہی نظر آرہی ہے۔ اسی تناظر میں ہماری سکیورٹی فورسز نے بھی پاک سرزمین کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کیلئے اپنی قیمتی جانوں کے عوض اپریشنز کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
اب کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے پاکستان میں دوبارہ حملوں کا اعلان کرکے دہشت گردی کی کارروائیوں کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے تو یہ ملک کی سلامتی اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے اس لئے ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنے اور ملک میں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرنے والے عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ضروری ہو گیا ہے۔ اب انکے معاملہ میں کسی نرم گوشے کی قطعاً گنجائش نہیں رہی۔ اس معاملہ میں اب کابل انتظامیہ سے بھی دوٹوک بات کی جائے اور اسے سختی کے ساتھ پاکستان سمیت علاقائی امن و استحکام کیلئے مؤثر کردار ادا کرنے کیلئے کہا جائے۔ ملک کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا قلع قمع کرنا ہماری سکیورٹی فورسز کی بنیادی ذمہ داریوں کا حصہ ہے جس کیلئے وہ جانفشانی کے ساتھ اپنے فرائض سے عہدہ برأ ہو رہی ہیں۔