ملکی معیشت، افواہیں اور حقیقت
گزشتہ چند ہفتوں سے تواتر کے ساتھ مختلف حلقوں کی طرف سے ملک کی معاشی حالت کی زبوں حالی اور ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات کے حوالے سے خبریں اور افواہیں میڈیا میں آ رہی ہیں۔ حکومتی مخالفین تو ایک طرف، حکومت کے اپنے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا بیان بھی اس ضمن میں اخبارات کی زینت بنا ہے جس میں یہ خطرہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ اگر فی الفور اقدامات نہ کیے گئے تو خدانخواستہ ملک دیوالیہ ہو جائے گا لیکن حکومتی حلقے اس قسم کی افواہوں اور خبروں کی تردید کرتے چلے آ رہے ہیں۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے ڈیفالٹ کا خطرہ ختم ہو گیا ہے۔ بین الاقوامی انویسٹسمنٹ بینکنگ اینڈ کیپیٹل مارکیٹس فرم جیفریز کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر ا عظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی صورتِ حال کے بارے میں غلط معلومات پھیلا کر بے بنیاد ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے حکومت ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھا رہی ہے۔ اسی طرح وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی ملکی معیشت میں بہتری کا عندیہ دیتے ہوئے دیوالیہ ہونے سے متعلق خبروں کی تردید کی تھی۔ پاکستان کی معاشی صورتِ حال کے بارے میں حکومت یا حکومت مخالف حلقوں نے جو بھی منظر کشی کی ہے اس میں شاید مبالغہ آرائی ہو لیکن پاکستان کے حال ہی میں سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی چند روز قبل یومِ دفاع و شہداء کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت پاکستان سنگین معاشی بحران کا شکار ہے۔ کوئی ایک پارٹی اس بحران سے ملک کو نہیں نکال سکتی۔ سب کو مل جل کر اس بحران سے نکلنے کے لیے کوشش کرنا ہو گی۔حقیقت بھی یہی ہے کہ ملک اس وقت بھی معاشی طور پر مشکلات میں مبتلا ہے۔ حکومت کی طرف سے تمام کوششوں کے باوجود معیشت اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہو پائی ۔ جب تک ہماری معاشی حالت درست نہیں ہو گی اورمعاشی استحکام کے لیے اقدامات نہیں کئے جائیں گے، ملک کے د یوالیہ ہونے کے خطرات منڈلاتے ہی رہیں گے۔