یہ کیا ہورہا ہے؟

بچپن میں یہ نظم پڑھی، پچپن تک آگے پہنچتے پہنچتے باقی تو سب کچھ بھول گئے، مگر علامہ اقبال نظم میں بس یہ شعر نہیں بھولے جس میں وہ فرماتے ہیں
سبق پھر پڑھ صداقت کا، امانت کا دیانت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
اور ہم تو مسلم امہ کے امامت دعویدار ہونے کے باوجود ستر سال بعد بھی ایک ہجوم ہیں، ہو سکتا ہے کہ کبھی ہم ایک قوم رہے ہوں اور علامہ کے اس فلسفہ بلکہ ہدایت کی کبھی کوئی لاج بھی رکھی ہو، چاہے اسی لئے رکھی ہو کہ حکیم صاحب ہیں، یعنی حکمی الامت، اور پاکستان کا خواب بھی دیکھا اور قائد اعظم نے سچ کر دکھایا
’’یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران‘‘
لیکن مٹھو کہتا ہے کہ اسلاف کی میت سے لپٹے تم لوگوں کی ناں توکوئی تربیت ہے، اور ناں قوم میں ڈھلنے کی صلاحیت، بلکہ تمہارا تو دین ایمان سب پیسہ ہے، اوراس مقصد کے لئے دروغ گوئی، بھائی کا گلا کاٹنا، بے ایمانی،ذخیرہ اندوزی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا جیسی عادات پر عمل ہی تہمارا اصول ہے، میں کہتا ہوں نہیں بھائی، قدرت اللہ شہاب کی معتبر گواہی موجود ہے کہ کیسے کراچی سے ملیر، اور دھابیجی اور پھر ٹھٹھہ تک سائکلوں پر جاکر افسران کانٹے اکٹھا کیا کرتے کہ کامن پن کا سرکاری خرچ بچے لیکن مٹھو کہتا ہے تو کیا ہوا، اس کے بعد ممتازمفتی صاحب کیعکسی مفتی کی گواہی بھی تو موجود ہے کہ کیسے مائی جنداں کی حویلی میں رنجیت سنگھ کی قیمتی پورٹریٹ چھت ٹپکنے سے خراب ہونے لگی تو سیڑھی کی فراہمی پر نوکر شاہی نے رکاوٹیں کھڑی کیں اور پھر جب عکسی صاحب اچانک ایک سیڑھی لے کر اس کی چھت کی بلا معاوضہ مرمت کر آئے تو اس کے لئے چلی فائل مل گئی، جس میں کوئی 25 لاکھ روپے مانگے گئے تھے، مٹھو شرمندہ کرنے سے باز ناں آیا بلکہ لہک لہک کر بولا رمضان میں حال دیکھ لیں، کیسے فروٹ غریب کی پہنچ سے اس لئے دور کردیا جاتا ہے کہ چند ٹکے منافع مزید بڑھا لیں اور پھر بھی مسلمان ہیں غیبت، جھوٹ، مکر فریب کر کے اسلاف کے کارناموں کا تذکرہ کرتے اور زرا زرا سی بات پر اکھڑ کر ناں جانے کون کون سے فتوے جاری کرتے رہتے ہیں۔ مزید طعنے مارتا ہے کہ کیسے ریپ ہورہے ہیں۔ گلے کاٹے جاتے ہیں ، بچوں تک کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا جارہا ہے، پولیس بے گناہوں کو مار رہی ہے، انصاف ہوتا ہوا نہیں دکھ رہا، سیاسی اشرافیہ ایک دوسرے کو تو کرپٹ اورتو کرپٹ کے طعنے مار رہی ہے اور آڈیوز ویڈیوز لیک کر رہی ہے
آج کا اصل موضوع یہی ویڈیوز، اورا ٓڈیوز کی سیاست ہے کہ ہم کس قدر پستی میں جاگرے ہیں، اور مسلسل گر رہے ہیں۔ ابھی رانا شمیم کے ثاقب نثار صاحب کے خلاف بیان حلفی کا معاملہ تھما نہیں تھا کہ سابق چیف جسٹس کی کی آڈیو لیکس کی گونج سنائی دینے لگی۔ وزرا کے گلے ان کی حمایت کرتے اور ن لیگ کو برا بھلا کہتے تھکے نہیں تھے کہ مریم نواز شریف کی اپنی آڈیو دھمکی کہ بس بہت ہوگیا، فلاں فلاں چینل کو اشتہار نہیں دینے، پھرانہوں نے کمال جرات کا مظاہرہ کیا اور ’’یہ میری آواز نہیں‘‘ یا ’’یہ میں تو نہیں‘‘ کہنے کے بجائے کہا کہ یہ میری ہی آواز ہے لیکن یار لوگوں نے بس نہیں کی ایک اور آڈیو لیک کر دی جس میں مستقبل میں وزیر اعظم کی امیدوار دکھتی مریم صاحبہ بتا رہی ہیں کہ کیسے وزیر اعظم عمران خان کو جھوٹا ثابت کیا اور جب ان کی سائیڈ کا موقف آیا تو میں نے کس سے بات کی۔ خیریہ برائی بھی پاکستانی سیاست میں کوئی نئی نہیں۔ دہائی قبل متعارف ہوچکی جب ووٹ کے لئے عزت مانگنے والوں نے بھٹو خواتین کی کچھ تصاویر ہیلی کاپٹر سے پھکوائیں، وہ جعلی ثابٹ ہوئیں تو امریکی سینیٹر پیٹر گالبرائتھ کو بینظیر بھٹو کا ایک مبینہ خط سامنے آگیا، بعد میں وہ بھی جعلی ثابت ہوا، اس وقت کیا احتساب کمشن میں ایک افضل بیورو کریٹ کے دفتر میں جعلی دستاویزات بنائی جاتی رہیں، جنہیں ’’اس وقت کی لاہور ہائی کورٹ نے بھی اٹھا پھینکا اور بعد میں کوئی مقدمہ ثابت ناں ہوسکا۔ اور 1997/98 تو یاد ہوگا ناں جب جسٹس ملک قیوم اور ایک اور جج صاحب کی آڈیو لیک ہوئی جس میں وہ شہباز شریف اور سیف ارحمٰن کو بتا رہے تھے کیسے سزا دی اور اس کی پاداش مین ان دونوں ججز کو گھر بھی جانا پڑا
میثاق جمہوریت ہوا توہم جیسے جمہوریت پسندوں نے سکھ کا سانس لیا کہ چلو اب 90 کی دہائی والی سیاست ختم ہوگئی۔ سیاسی اشرافیہ باہمی اتحاد و اتفاق سے نوکر شاہی اور اس ریاستی اشرافیہ کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کے خلاف سازش نہیں کرے گی، لیکن ہائے رے اقتدار اور اس کی بھوک ابھی 2008 انتخابات کے نتایج کے بعد ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ حکومت نے کرالنگ بھی ناں سیکھی تھی کہ وہ قوتیں جنہیں جمہوریت ہرگز نہیں بھاتی اپنا کام دکھانے میں کامیاب ہوئیں اور افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے نام پر ن لیگ الگ ہو کر حزب اختلاف میں جاکھڑی ہوئی ۔ پھر عالم فلک نے دیکھا کہ کیسے اپنے شہباز شریف ’’پکھیاں‘‘ جھلتے ہوئے مینار پاکستان کے سائے میں اپنی پوری کابینہ کے ساتھ آ بیٹھے۔ ہائے بجلی ہائے بجلی کی گردان کی، ایوان صدر کا گھیراو آجکل بے کار ہوئے چوہدری صاحب نے کر ڈالا، پھر شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کی بحالی کی اپیل کرنے والے آصف زرداری کی حکومت کے خلاف جو طوفان بپا ہوا وہ پہلے تو پیپلز پارٹی کو بہا لے گیا، لیکن پھر عمران خان کا طوفان نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا سبب بن کر ن لیگ کو منہ چڑانے لگا اور اب یہ عالم ہے کہ میاں صاحب باہر بیٹھے پتے سیٹ کرنے میں مصروف ہیں تو بیٹی رائے ونڈ سے سب کو للکار رہی ہیں ۔ بات ہو رہی ہے عوام کے حق حکمرانی، صاف ستھری جمہوریت اور عوام کے کاندھے پر بیٹھ کر اقتدار لینے کی
اب کون ہے جو آئینہ دکھائے، پیپلز پارٹی تو سدا کی مطعون ٹھہری، اس پر الزام اور شائد کسی حد تک سچا بھی ہے کہ وہ ’’ان‘‘ کے ساتھ پیگیں بڑھا رہی ہے لیکن کیا کیا جائے کہ جاوید لطیف جیسے جید سیاسی کارکن بتا رہے ہیں کہ اہم لوگ میاں صاحب سے ملتے ہیں اور بات چل رہی ہے۔ چلیئے مان لیا کہ جمہوریت کی بحالی ہی گوہر مقصود ہوگا لیکن این اے 133 لاہور کے ضمنی انتخاب نے ایک بار پھر ہماری سیاسی اشرافیہ کو بے نقاب کر دیا۔ ن لیگ جو اس حلقہ کی ازلی ابدی دعویدار ہے کچھ ویڈیوز مارکیٹ میں لائی ہے کہ پیپلزپارٹی ووٹ خرید رہی ہے لیکن پیپلز پارٹی بھی نچلی سطح کی نہیں، ویڈیو تو ناں جانے کس نے وائرل کی، لیکن کچھ پیپلز پارٹی والے بھی اس میں حصہ ڈالتے رہے جس میں ن لیگ کا کیمپ یا ایک دفتر ہے، کہیں ن لیگی پوسٹر لئے گھروں کے دروازوں پر سودی بازی ہو رہی ہے، ووٹ کی مبینہ خرید و فروخت جاری ہے، الیکشن کمیشن نوٹس لے چکا امیدواروں کو بھی طلب کر لیا، لیکن مجال ہے کسی کو بھی میثاق جمہوریت یاد آیا ہو۔ دونوں ہی اپنا اپنا راگ اپنی اپنی ڈفلی بجا کر گارہے ہیں، ن لیگ کہتی ہے کہ اسے تو کوئی ضرورت ہی نہیں اس حلقہ پر محنت کرنے کی کیونکہ وہ جیت رہی ہے، لیکن اس رویہ سے البتہ ایک سوال اٹھ رہا ہے کہ اگر گیپ بہت زیادہ ہے اور پیپلز پارٹی آپ کے لئے چیلنج نہیں تو یہ چیخیں کیوں؟ کیونکہ بعض واقفان حال کا کہنا ہے کہ شائد اس بار نواز شریف کو بھی آئینہ دکھانا مقصود ہو کہ لاہور آپ کے ہاتھ سے جارہا ہے۔ پھر پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ وہ 2013 کے بعد پہلی بار آزاد ماحول میں الیکشن لڑ رہی ہے اس لئے اچھے نتائج دے گی۔ باہر بیٹھے نواز شریف اور اندر بیٹھے آصف زرداری کو یہ ضرور سوچنا چاہیئے کہ یہ ووٹ کی خرید و فروخت اور ویڈیو گردی کہاں تک میثاق جمہوریت کی پاسداری ہوگی؟ اور کیوں ناں غیر جمہوری قوتیں آپ کو دیوار سے لگائیں۔ ایک نشست زندگی موت کا مسئلہ نہیں ہوتی، ناں ہی ایک الیکشن کی ہار جیت کسی کی مقبولیت کی دلیل۔ یہی سمجھ لیاجائے تو سیاسی قوتوں کی مہربانی ہوگی ۔