ملک کیسے چلے گا؟
’’جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے، ہمارے حالات بھی نہیں بدلیں گے۔‘‘
حالات معاشی ہوں تو اُن کا ملک کی ترقی سے جُڑے رہنا اور بھی ضروری ہے۔ لیکن اقتصادی ماہرین نے اب خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ مہنگائی کا عفریت ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ پٹرول سے لے کر کھانے پینے کی بنیادی اشیاء تک سب مہنگی ہو چکی ہیں۔ جن میں روز افزوں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ مہنگائی سے تنگ عوام سڑکوں پر آنے پر مجبور ہیں۔ بہت سے شہروں میں مہنگائی کے خلاف احتجاج بھی شروع ہو گیا ہے۔ آنیوالے دن، مہینے اور سال پاکستانی عوام پر بھاری گزریں گے۔ ماہرین اقتصادیات کے تجزیوں سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک حکومتی وزراء کا تعلق ہے وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ پاکستان میں کوئی مہنگائی ہے۔ وزراء کا مؤقف ہے کرونا کے بعد پوری دنیا ہی مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔ عالمی منڈی میں پٹرول اور دیگر خوردنی اجناس کی قیمتیں بڑھی ہیں جن کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے ہیں۔ وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ چونکہ یہ تمام آئٹم امپورٹ کی جاتی ہیں اسی لیے ملک میں گرانی کا طوفان آیا ہوا ہے لیکن ماہرین اقتصادیات اور باخبر حلقے اس حکومتی موقف کو ماننے کیلئے تیار نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اجناس اور پٹرول و گیس کی قیمتوں اور ریٹس میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط کے بعد ہوا ہے۔ اربوں ڈالر قرضے کے عوض آئی ایم ایف کی مینجمنٹ نے جو کڑی شرائط عائد کی ہیں اور جو ہم نے بہ امرِ مجبوری مانی بھی ہیں۔ اُس کے سبب مہنگائی کے اس عفریت نے جنم لیا ہے۔ حکومتی موقف ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جائے بناء ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔
میں سمجھتا ہوں حکومت ٹھیک ہی کہتی ہے۔ کوئی بھی خوشی سے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاتا۔ حکومت میں آنے سے پہلے عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو عوامی جلسوں میں بار بار اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کرتے تھے کہ پاکستان کی اقتصادیات کو آئی ایم ایف کے ہاتھوںگروی رکھ دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو ہم کبھی بھی آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے لیکن حکومت میں آنے کے بعد بالآخر انہیں بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ جہاں شرائط کی ایک لمبی فہرست ہمارے مشیر خزانہ اور اُن کی ٹیم کی منتظر تھی۔ پورے مہینے آئی ایم ایف کے ساتھ ہماری ٹیم کے مذاکرات ہوتے رہے۔ حتی المقدور کوشش کی گئی کہ آئی ایم ایف کی مینجمنٹ اپنی کڑی شرائط سے پیچھے ہٹ جائے لیکن خدا کے یہ بندے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اپنی شرائط منوا کر ہی چھوڑیں۔ اس طرح ہمیں خزانہ ڈالرز سے بھرنے کا موقع میسر آ گیا جو بیرونی تجارت برقرار رکھنے کیلئے انٹرنیشنل قواعد کے مطابق ضروری تھا۔ شوکت ترین اور اُن کی ٹیم اگر آئی ایم ایف سے اپنے مذاکرات کو منطقی انجام تک نہ پہنچاتی تو یقینا ہماری رہی سہی معیشت کا بیڑا پوری طرح سے ڈوب چکا ہوتا۔
ہم نے جا کے دیکھ لیا ۔ کیا ہوا ہمارے ساتھ؟ ایسی ہوشربا شرائط لگائیں آئی ایم ایف کی مینجمنٹ نے کہ نا چاہتے ہوئے بھی ہمیں وہ سب کی سب ماننی پڑیں۔ بجلی کو مہنگا کرنا پڑا۔ آنے والے دنوں میں شنید ہے یہ مزید مہنگی ہو گی۔ گیس کے ریٹ بھی سوچ سے آگے کر دئیے۔ شرح سود بھی بڑھانی پڑ رہی ہے۔ دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ بھی آئی ایم ایف کے ایماء پر ہوا ہے، ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا کرنے پرمجبور ہیں۔
لیکن بے چارے یہ غریب جائینگے کہاں۔ اُن کا نہ تو کوئی پرسان حال ہے، نہ پریشانیوں کا کوئی مداوا کرنے والا۔ پٹرول، بجلی غرضیکہ ضروریات زندگی کی ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے بلکہ اُن سب کے دام تین سے چار گنا بڑھ گئے ہیں۔ صنعتی نظام کو بھی بریک لگ گئی ہے۔ مہنگائی نے اس صنعت کو بھی اس قدر متاثر کیا ہے کہ صنعتی مالکان کافی سے زیادہ تعداد میں اپنے ملازمین اور مزدوروں کو نکالنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ محدود افراد کے ساتھ صنعتی شعبوں کو چلایا جا رہا ہے اور ملازمین کی چھانٹی کا عمل بھی جاری ہے۔ طاقتور میڈیا ہائوسز سے بھی کافی لوگ نکالے جا چکے ہیں جن میں ورکنگ جرنلسٹوں کے علاوہ دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی بھی کثیر تعداد شامل ہے۔ اقتصادیات کے نامور ماہرین جب کسی نجی ٹی وی چینل کے ٹاک شو کا حصہ بنتے ہیں اور گفتگو کا آغاز کرتے ہیں تو ہمیں اُن کی آراء سن کر مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ گزشتہ ہفتے ایک ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کو سن رہا تھا جو ایک نجی ٹی وی چینل کے مہمان تھے۔ موضوع ’’اقتصادیات‘‘ ہی تھا۔ وہ رائے دے رہے تھے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو حکومت کے کنٹرول سے باہر کر کے پرائیوٹائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ملک کیلئے بڑی تباہ کن بات ہو گی۔ حکومت کو آئی ایم ایف کے کہنے پر اس اقدام سے گریز کرنا چاہیے۔ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی کے خیالات بھی بہت چونکا دینے والے اور تہلکہ خیز ہیں۔ شبر زیدی کہتے ہیں ’’جب میں نے بحیثیت چیئرمین ایف بی آر کا عہدہ سنبھالا تو سات انڈسٹریز پر ’’ٹریک اینڈ ٹریس‘‘ سسٹم لگانے کی کوشش کی۔ ان میں سیمنٹ اور سگریٹ انڈسٹری وغیرہ شامل تھیں لیکن مجھے اس میں ناکامی ہوئی کیونکہ یہ لوگ عدالت سے حکم امتناعی لے آئے تھے۔میری کوشش رہی کہ ایف بی آر کو بینکنگ ڈیٹا تک رسائی حاصل ہو۔پاکستان میں بزنس اکائونٹ 4کروڑ کے لگ بھگ ہیں لیکن ٹیکس ڈکلیئرڈ بزنس اکائونٹ صرف ایک کروڑ کے قریب ہیں۔ اگر کسی کے اکائونٹ میں ایک کروڑ بھی ہو تو این ٹی این لگنا چاہیے لیکن مختلف پریشرز کے باعث میں ایسا نہیں کر سکا اور نہ ہی ایسا نظام لا سکا کہ ان سے ٹیکس کی وصولی ہو سکے۔
شبر زیدی کا کہنا ہے ’’بجلی کے ساڑھے تین لاکھ انڈسٹریِل کمرشل کنکشن ہیں۔ لیکن سیلز ٹیکس میں صرف 40 ہزار انڈسٹریز رجسٹرڈ ہیں۔ میں نے جب باقی انڈسٹری کو بھی سیلز ٹیکس کی فہرست میں لانے کی کوشش کی تو لاہور چیمبر آف کامرس سے پریشر آنا شروع ہو گیا۔‘‘
شبر زیدی کا مزید کہنا ہے ’’زراعت کے شعبے میں آڑھتی اتنا پاورفیل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی بھی جنس کی قیمت بڑھا یا گھٹا سکتا ہے۔ کوئی اُس سے پوچھنے والا نہیں۔ اُسکے پاس غیر فطری طریقے اور ذرائع سے کمایا ہوا بہت سا پیسہ ہوتا ہے ، اسی لیے وہ بہت طاقتور ہے۔ میری آڑھتیوں سے جب میٹنگ ہوئی تو انہوں نے کہا ’’آڑھتیوں پر ٹیکس لگانا میرے بس کا روگ نہیں۔‘‘گوشت (بیف) بھی ہمارے ملک کی بہت بڑی ٹریڈ ہے۔ گوشت کا کاروبار کرنے والا ہم سے زیادہ پیسہ کما رہا ہے لیکن سرکار کو اپنی کمائی یا منافع میں سے ایک پیسہ نہیں دیتا۔ پولٹری کا بزنس بھی بہت وسیع ہے لیکن پولٹری کے حوالے سے حکومتی خزانے کو ملک بھر سے تیس، چالیس کروڑ سے زیادہ کا ٹیکس نہیں ملتا۔
سلک کے حوالے سے بات کی جائے تو شبر زیدی کہتے ہیں پاکستان میں سلک کی ایک بھی مل نہیں چل رہی لیکن سلک کا کپڑا پاکستان میں آ رہا ہے، کہاں سے آ رہا ہے؟ ہمیںجان لینا چاہیے کہ یہ سارا دھندہ اسمگلنگ سے چل رہا ہے۔‘‘شبر زیدی کا مزید کہنا ہے کہ بحیثیت چیئرمین ایف بی آر کراچی چیمبر میں سراج قاسم تیلی کو جب کہا کہ ٹیکس سے متعلق ساری مشکلات ختم کر دوں گا لیکن میری صرف یہ شرط ہے کہ آپ کراچی میں اسمگل شدہ مال نہیں بیچیں گے لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔جب ہمارے رویے ایسے ہیں اور ٹیکس اکٹھا نہیں ہو گا تو ملک کیسے چلے گا۔
شبر زیدی کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں نے ایک اکائونٹ دیکھا جس میں اربوں روپے آ جا رہے تھے لیکن اس اکائونٹ ہولڈر کا این ٹی این نہیں تھا۔ جس کے اکائونٹ میں اتنی بڑی امائونٹ ہو وہ کیونکر این ٹی این رکھے گا؟ اسکی حد ایک کروڑ یا دس کروڑ کر لیں، این ٹی این تو ہونا چاہیے۔شبر زیدی کے انکشافات میں سے ایک اہم انکشاف یہ بھی تھا کہ جہانگیر ترین کے علاوہ کسی بھی سیاستدان کی کمپنی لسٹڈ (درج) نہیں ہے۔ یہ لوگ ڈاکومینٹیشن چاہتے ہی نہیں ہیں۔ ان میں سے ایک فیصد بھی ڈاکومینٹیشن میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ یہی کوشش کی جاتی ہے کہ ڈاکو مینٹیشن نہ ہو، تاکہ وہ ٹیکس نیٹ ورک کا حصہ نہ بن جائیں۔
بزنس میں ایک پورا مافیا ہے جو ٹیکس کے حوالے سے نافذ کردہ قوانین اور متعین کردہ ضابطوں کی پابندی نہیں کرنا چاہتا۔ آپ خود سوچئے، جس ملک میں ٹیکس کلیکشن نہیں ہو گی وہ ملک کیسے آگے بڑھے گا۔ ریونیو اکٹھا نہ ہونے سے ترقی اور ڈویلپمنٹ کا سارا عمل ہی رک جاتا ہے۔ جس سے ہر سطح پر پسپائی اور زبوں حالی کا عفریت تباہی و بربادی کا پیغام لے کر آتا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت نا صرف ٹیکس کے نظام کو بہتر بنائے بلکہ بزنس سے وابستہ افراد کو بھی چاہیے کہ وہ ٹیکس کی ادائیگی کو ہر سطح پر یقینی بنائیں ۔