"پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کی کہانی

یاد رکھو لیفٹسٹو میں تمہاری گردن پر سوار ہو جاؤں گا" ذوالفقار علی بھٹو نے یہ الفاظ میاں محمود علی قصوری کی رہائش گاہ سے باہر نکلتے ہوئے کہے -وہ نئی پارٹی بنانے کی بجائے نیشنل عوامی پارٹی میں مرکزی عہدہ حاصل کرنے کے خواہش مند تھے-قصوری کے گھر پر ان کی نیپ کے رہنماؤں سے ملاقات ہوئی- انہیں مرکز کی بجائے صوبائی عہدے کی پیشکش کی گئی- ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری ترجیح کونسل مسلم لیگ تھی انہوں نے دولتانہ سے ملاقات کی- دولتانہ نے بھٹو کو سندھ کا جنرل سیکریٹری بنانے کی پیشکش کی جسے انہوں نے مسترد کردیا- جنرل ایوب خان بڑے مضبوط حکمران تھے اور کوئی سیاسی جماعت یہ تصور نہیں کر سکتی تھی کہ بھٹو سیاسی جماعت بنا کر قومی سیاست دانوں کو چیلنج کر سکتے ہیں- روایتی سیاست دان عوام کے موڈ اور بھٹو کے کرشمہ کا درست ادراک نہ کر سکے یہی وجہ ہے کہ وہ بھٹو کو اہم مرکزی عہدہ دینے کے لیے تیار نہیں تھے- بھٹو خود بھی نئی سیاسی جماعت کے سلسلے میں پر اعتماد نہیں تھے جبکہ ان کے رفقاء انہیں نئی پارٹی بنانے کے مشورے دے رہے تھے -1965ء کی جنگ کے بعد بھٹو ہیرو کے طور پر سیاسی منظر پر ابھرے جب انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تاریخی خطاب کرتے ہوئے بھارت کو للکارا تھا- انہیں تین ماہ کی جبری رخصت پر پاکستان سے باہر بھیج دیا گیا- انہی دنوں تھنکرز فورم تشکیل دیا گیا جس میں خورشید حسن میر‘ حنیف رامے‘ ڈاکٹر کنیز فاطمہ یوسف اور غالب احمد شامل تھے-جب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان واپس آئے تو فلیٹیز ہوٹل لاہور میں تھنکرز گروپ کی ملاقات ان سے ہوئی جس میں نئی پارٹی بنانے کے لیے زور دیا گیا- ذوالفقار علی بھٹو نے حنیف رامے سے پوچھا کہ کس بنیاد پر نئی پارٹی بنانی چاہیے تو انہوں نے کہا کہ جس طرح مصر میں ناصر نے الاشتراکیتہ الاسلامیہ کے نام سے پارٹی بنائی ہے اسی طرح پاکستان میں اسلامی سوشلزم کی بنیاد پر پارٹی قائم ہونی چاہیے- بھٹو نے ان کو انگریزی میں سمری تیار کرکے پیش کرنے کے لئے کہا- انہی دنوں لاہور میں دانشوروں کا ایک گروپ کام کر رہا تھا جس میں ڈاکٹر مبشر حسن‘ حامد سرفراز اور مرزا عبدالطیف شامل تھے- اس گروپ کے ہفتہ وار اجلاس ہوتے تھے-ڈاکٹر مبشر حسن نے ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کرکے ان کو نئی سیاسی جماعت کے سلسلے میں" اتحاد عوام" کے نام سے ایک پیپر پیش کیا جسے بعد میں پی پی پی کی بنیادی دستاویزات میں شامل کر لیا گیا- جے اے رحیم فرانس میں پاکستان کے سفیر تھے جو بھٹو کے ذاتی دوست تھے اور پکے سوشلسٹ تھے- انہوں نے نئی پارٹی کی بنیادی دستاویزات اور منشور تیار کرنے میں دلچسپی لی- اکتوبر 1966 ء میں انہوں نے نئی پارٹی کا منشور تیار کر کے بھٹو کو روانہ کیا اور یہ خط لکھا- " منشور ہماری رہنمائی کرے گا ہمیں امید ہے کہ آپ پارٹی کے سولہ راہنما اصولوں پر سختی سے کاربند رہیں گے- جب سیاستدان آپ کے پاس سودے بازی کے لیے آئیں گے تو آپ ان سے سودا نہیں کریں گے۔ اصولوں کے بغیر تحریک کچھ حیثیت نہیں رکھتی"-ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے رفقاء نے لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلا کنوینشن 30 نومبر 1967ء کو کرنے کا فیصلہ کیا جو یکم دسمبر تک جاری رہا- یہ کنونشن ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر ہوا کیونکہ جنرل ایوب خان کے خوف سے کوئی ہوٹل ہال دینے کے لئے تیار نہیں تھا-اس کنوینشن میں چار سو کے قریب مندوب شامل تھے جو مختلف صوبوں سے آئے ہوئے تھے-نئی پارٹی کے لیے تین نام پیش کیے گئے- پیپلزپروگریس پارٹی‘ پاکستان پیپلز پارٹی‘ سوشلسٹ پارٹی آف پاکستان‘ مندوبین نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نام کی منظوری دے دی اور ذوالفقار علی بھٹو کو چیئرمین منتخب کرلیا - اسلام ہمارا دین ہے جمہوریت ہماری سیاست ہے سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں پارٹی کے بنیادی اصول قرار پائے- سرخ سبز سیاہ رنگوں پر مشتمل پارٹی پرچم کی منظوری دی گئی۔ سرخ رنگ انقلاب سیاہ رنگ ظلم اور استحصال اور سبز رنگ اسلام کی ترجمانی کرتا ہے-
یہ پرچم اس قدر خوبصورت تھا کہ اس نے پی پی پی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا - اس کنونشن میں دس بنیادی دستاویزات منظور کی گئیں- تاسیسی اجلاس میں 25 قراردادیں منظور کی گئیں- پی پی پی نے کنونشن کے بعد موچی دروازہ لاہور میں جلسہ عام کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا مگر حکومت نے لاہور میں دفعہ 144 نافذ کردی اور جلسے کا اجازت نامہ منسوخ کر دیا - اخبارات نے پی پی پی کے پہلے کنوینشن کو کوئی کوریج نہ دی- پاکستان ٹائمز نے چند سطروں کی خبر شائع کی- پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی سنٹرل کمیٹی ان راہنماؤں پر مشتمل تھی- ذوالفقار علی بھٹو چیئرمین‘ جے اے رحیم سیکرٹری جنرل‘ شیخ محمد رشید صدر پنجاب‘ ڈاکٹر مبشر حسن صدر لاہور‘ رسول بخش تالپور‘ خورشید حسن میر‘ طالب المولیٰ‘ معراج محمد خان‘ خان امان اللہ گچکی‘ عبدالوحید کپڑ ‘حیات محمد خان شیرپاؤ ‘طاہر محمد خان‘ بیگم نسیم جہان ‘حنیف رامے‘ بیگم آباد احمد اور تاج محمد لنگاہ- پی پی پی کے جیالے کارکنوں نے پارٹی کے پروگرام کو ہر گلی کوچے اور گھر میں پہنچایا-پاکستان پی پی پی جس طرح برق رفتاری کے ساتھ غریب عوام مزدوروں اور کسانوں میں مقبول ہوئی اس نے نہ صرف جنرل ایوب خان بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو پریشان کردیا-ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اسٹیٹس کو للکارا اور غریب عوام کے حقوق روٹی کپڑا مکان کی پرزور وکالت کی جس کی وجہ سے ان کا پیغام پورے پاکستان میں آگ کی طرح پھیل گیا - 1970ء کے انتخابات میں پاکستان کے غریب عوام نے سیاسی معجزہ کر دکھایا اور پاکستان پیپلزپارٹی نے روایتی سیاسی برج الٹ کر رکھ دیے-پی پی پی اپنے قیام کے صرف تین سال بعد وفاق پنجاب اور سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔