بدھ‘25 ربیع الثانی، یکم دسمبر 2021ء
کرتارپور فوٹوشوٹ پر وزیراعلیٰ کا سخت نوٹس‘ اجازت دینے والوں کیخلاف کارروائی کی ہدایت
ہمارے ہاں اشتہارات چلانے والے نجانے کیوں مقدس مذہبی مقامات کا احترام بھول گئے ہیں ورنہ وہ کرتارپور گوردوارہ کو ماڈلنگ کیلئے منتخب نہ کرتے۔ پہلے ہی مسجد وزیرخان میں فوٹوشوٹ پر ہونے والا تنازع ابھی تک حل نہیں ہوا۔ اب یہ نیا تنازع سامنے آرہا ہے۔ شادی کی فوٹوگرافری ہو یا ماڈلنگ کے فوٹو شوٹ‘ ان کیلئے پوری دنیا بھری پڑی ہے۔ اشتہارات والے تو لندن‘ نیویارک‘ پیرس تک جا کر فوٹوشوٹ کراتے پھرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملکی سطح پر کیا ہمارے پاس خوبصورت مناظر اور دلنشین مقامات کی کمی ہے کہ ہم تاریخی عمارتوں‘ باغات‘ حسین دلکش مناظر اور مقامات کو چھوڑ کر مقدس مذہبی مقامات پر چڑھ دوڑے ہیں۔ کیا ماڈلنگ کرنے والوں‘ اشتہار بنانے والوں‘ کمپنی والوں میں سے کسی کو بھی یہ شعور نہیں ہوتا کہ ایسا کرنا ان کیلئے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ایسے مقامات پر شوٹنگ کی اجازت دینے والے بھی کم مجرم نہیں۔ انہوں نے کس طرح ایسا کرنے کی اجازت دی ہے۔کیا وہ نہیں جانتے کہ ایسا کرنا خطرناک ہو سکتا ہے اور اب وہی ہو رہا ہے۔ وفاقی حکومت ہی نہیں‘ گوردوارہ کرتارپور کے منتظمین اور سکھ برادری بھی دربار صاحب میں ماڈلنگ کے فوٹوشوٹ پر برہم ہیںاور بات عدالت تک جانے لگی ہے۔ یہ تو شکر ہے وزیراعلیٰ پنجاب نے ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے جس کے بعد اُمید ہے معاملہ سلجھ جائے گا۔
٭٭٭٭
ہوائی اڈوں کی بحالی‘ طالبان نے یورپی یونین سے مدد مانگ لی
لگتا ہے اب طالبان کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہے کہ عالمی برادری کی امداد کے بغیر وہ افغانستان کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہیں۔ طالبان کے پہلے دورحکومت میں سوشل میڈیا اتنا ایکٹو اور طاقتور نہیں تھا۔ علاوہ ازیں اس وقت میڈیا اتنا فاسٹ بھی نہیں تھا‘ نہ ہی موبائل کی لت سب کو پڑی تھی۔ اب میڈیا‘ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ نے جو عروج پایا ہے‘ اس نے حقیقت میں پوری دنیا کو ایک ہتھیلی میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ اب یہ حال ہے کہ ہر شخص خواندہ ہو یا نیم خواندہ‘ یا بالکل جاہل‘ وہ موبائل فون ہاتھ میں لیکر پوری دنیا کی معلومات پل بھر میں حاصل کر لیتا ہے۔ اس لئے اب طالبان کے پاس بھی یہی راستہ ہے کہ وہ عالمی برادری کو ساتھ ملا کر اپنے ملک کو مزید غربت‘ بدحالی‘ تباہی و بربادی سے نجات دلائیں۔
اس وقت افغانستان میں غذائی بحران ایک بہت بڑے انسانی المیہ کو جنم دے رہا ہے۔ صحت کی سہولتیں نایاب ہیں۔ عالمی برادری مدد کرنا چاہتی ہے مگر اس کی پہلی شرط تعلیم عام اور خواتین کے حقوق بحال کرنے پر ہے۔ ان دونوں معاملات میں طالبان کی سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے ابھی تک عالمی برادری اور طالبان حکومت میں بہتر تعلقات بحال نہیں ہو رہے۔ اس کے باوجود عالمی برادری خوراک اور ادویات افغانستان پہنچا رہی ہے۔ اب ہوائی اڈوںکی بحالی کیلئے انہوں نے افغان طالبان کی درخواست پر اپنا وہی عورتوں کے حقوق، تعلیم کی بحالی اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ خدا کرے دونوں طرف سے کوئی راہ نکل آئے تاکہ دکھوں اور پریشانیوں کا شکار افغان عوام کسی اور بڑے انسانی المیہ سے محفوظ رہ سکیں۔
٭٭٭٭
5 روپے اضافہ: درجہ دوم گھی 350 روپے کا اور آئل 365 روپے لٹر ہو گیا
خدا جانے مہنگائی نامی اس عفریت نے کچن آئٹمزکو کیوں خاص طورپر نشانے پر رکھ لیا ہے۔ مہنگائی باقی اشیاء کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہے مگر کچن کی زیراستعمال اشیاء تو غریبوں کی پہنچ سے بہت دور ہو رہی ہیں۔ گھی یا کوکنگ آئل کے بنا کسی بھی گھر میں کھانا تیار نہیں ہو سکتا‘ سوائے ان گھروں کے جہاں سیریس مریض کیلئے اُبلی ہوئی سبزیاں تیار ہوتی ہیں۔ اب حکومت نے شاید غریبوں یا عام آدمی کو جو درجہ اول کی اشیاء خریدنے کی سکت نہیں رکھتے‘ بیماریوں سے محفوظ رکھنے کیلئے درجہ دوم کے گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے تاکہ وہ دو نمبر گھی اور آئل کے استعمال سے محفوظ رہیں۔ یہ گھی 350 روپے کلو اور آئل 365 روپے لٹر ہونے کے بعد ویسے بھی کوئی غریب اب انہیں خرید نہیں سکے گا۔ یوں چوپڑی کھانے والوں کو بھی اب روکھی سوکھی روٹی اور اُبلی سبزیوں پر گزارا کرنا پڑے گا۔ اس طرح ان کی صحت بھی بحال رہے گی اور ان کے اخراجات میں بھی تھوڑی بہت کمی آئے گی۔ واہ رہے واہ کیا بات ہے ہماری حکومت اور ہمارے حکمرانوں کی۔ ان جیسا درد دل رکھنے والا کسی اور ملک کو کہاں مل سکتا ہے۔ شومئی قسمت سے یہ ہمیں ہی ملے ہیں جن کی مہربانی سے اب کھانوں کو تڑکا لگانے والی سوندھی سوندھی خوشبو سے ہمارے باورچی خانے تہی ہو رہے ہیں۔ تڑکا اور پراٹھا سے اب عام آدمی کے دسترخوان محروم ہو گئے ہیں۔ اب انہیں روکھی سوکھی روٹی اور اُبلی ہوئی سبزی‘ دال پر گزارا کرنا ہوگا اور یہ سب روکھی سوکھی کھاتے‘ پربھو کے گن گاتے نظر آئیں گے۔
٭٭٭٭
محمد وسیم ایک ساتھ دو فائٹ جیتنے والے پہلے باکسر بن گئے
پاکستان کے باکسر محمد وسیم نے ڈبلیو بی اے فلائی ویٹ ایلیمنیٹر فائٹ اور ڈبلیو بی میں سلور میڈل جیت کر بیرون ملک ناصرف ملک کا نام روشن کیا بلکہ دو عالمی ایوارڈ جیتنے والے پہلے پاکستانی باکسر کا اعزاز بھی اپنے نام کر لیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم ہیرو کہہ سکتے ہیں۔ بنا حکومتی امداد اور عالمی سہولتوں کے اپنی مدد آپ کے تحت یا دوستوں بہی خواہوں کے تعاون سے یہ لوگ تیاری کرکے ملکی و بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں ملک و قوم کا نام روشن کرتے ہیں۔ محمد وسیم نے اپنے کیرئیر کی یہ بارہویں فائٹ جیتی ہے۔ چوٹوں سے بھرے چہرے اور سر پر بندھی پٹی کے باوجود وہ خوش تھے۔ انہوں نے کولمبیا کے باکسر کے ساتھ بارہویں رائونڈ یعنی آخری دم تک بھرپور مقابلہ کیا اور ریفری نے انہیں پوائنٹس پر کامیاب قرار دیا ، حالانکہ کولمبیا کے باکسر کے پاس ہر ممکن سہولت تھی۔ وہ بہترین صحت کے مالک تھے اور بہترین پریکٹس کے ساتھ میدان میں آئے تھے۔ مگر پاکستانی باکسر اللہ توکل اور واجبی صحت اور عام پریکٹس کے بعد رنگ میں اترے تھے۔ جبھی تو انہوں نے اپنی کامیابی کو اپنے رب کے نام کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور کہا وہ بہت خوش ہیں کہ انہیں یہ کامیابی ملی۔ کیا ہماری حکومتیں اور محکمہ کھیل اپنے ایسے بے مول ہیروں پر نظر ڈالنا پسند کریں گے جنہیں معمولی تراش خراش کے بعد سر کے تاج میں سجایا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭