مسائل میں جکڑے عوام کو اخلاقیات کے لیکچر

وزیراعظم عمران خاں نے کہا ہے کہ جب کوئی کرپٹ لیڈر قوم کا پیسہ چوری کرے تو ملک کے لئے اس سے بڑا عذاب کوئی نہیں،ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پیسہ کمانا اور اپنے عزیز و اقرباء کو نوازنا ہی لیڈر شپ کا معیار بن گیا جبکہ مدینہ کی ریاست میں میرٹ تھا۔ گزشتہ روز جہلم میں القادر یونیورسٹی کے اکیڈمک بلاکس کے افتتاح کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ جہاں اخلاقیات تباہ ہوں گی وہاں سونا، ہیرے، جواہرات بھی نکلیں، پھر بھی وہ ریاست نہیں بچ سکتی۔ ان کے بقول پاکستان میں 1985ء کے بعد سب سے بڑی تباہی بدعنوانی کی صورت میں آئی۔ ایسے معاشرے میں اخلاقیات پروان نہیں چڑھ سکتیں جہاں محنت کرنے والا یہ دیکھے کہ قبضہ گروپ بڑے سے بڑے پلازے بھی کھڑے کر لیتا ہے اور وہ اسمبلیوں تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ سپریم کورٹ سے سزا یافتہ شخص جھوٹ بول کر ملک سے بھاگا ہوا ہے جبکہ عاصمہ جہانگیر فائونڈیشن کے سیمینار میں ججوں کی موجودگی میں مجرم کے خطاب سے یہ پیغام دیا گیا کہ ڈاکہ مارو تو بڑا مارو، انہوں نے کہا کہ اخلاقی اقدار کے حامل معاشرے کو ایٹمی بم بھی تباہ نہیں کر سکتا، اگر کرپشن کو بُرا نہ سمجھا جائے تو محنت کون کرے گا۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حکمران اشرافیہ طبقات نے اپنے مفادات کی بنیاد پر اس ملک خداداد کو بانیان پاکستان اقبال و قائد کی اُمنگوں اور آدرشوں کے مطابق آج تک اسلامی، جمہوری فلاحی معاشرے کے قالب میں ڈھلنے ہی نہیں دیا۔ اس طرح برصغیر کے مسلمانوں کو ہندو اور انگریز کے مسلط کردہ استحصالی نظام سے نجات دلانے اور اس کے لئے الگ مملکت کے حصول کے مقاصد بھی گہنائے رہے اور اس مملکت کے عوام کی اقتصادی خوشحالی کے خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو پائے۔ اگر قیام پاکستان کے بعد بانیٔ پاکستان مزید کچھ عرصہ تک حیات رہتے تو وہ اس نو تشکیل کردہ مملکت کے سسٹم کی بنیادیں سلطانیٔ جمہور کے تصور کے مطابق مضبوط و مستحکم بنا دیتے مگر بدقسمتی سے قدرت نے انہیں اس ملک خداداد کیلئے مربوط جمہوری نظام کے خدوخال اُجاگر کرنے کی بھی مہلت نہ دی اور ان کے سانحۂ ارتحال کے بعد مفاد پرست سیاستدانوں، جاگیرداروں اور ہندو اور انگریز کے استحصالی نظام میں فوائد سمیٹنے والے ان کے ٹوڈی طبقات نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ باہم گٹھ جوڑ کر کے جمہوری نظام کو پنپنے ہی نہ دیا اور اقتدار کی میوزیکل چیئر کا کھیل شروع کر کے ملک کو لوٹ مار والے اسی استحصالی نظام کی جانب دوبارہ دھکیلنا شروع کر دیا جس سے نجات کے لئے برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی زیر قیادت خود کو منظم کیا اور ایک پرامن جمہوری تحریک کے ذریعہ نئی مملکت کے حصول کا خواب شرمندۂ تعبیر کیا تھا۔ ان مفاد پرست طبقات نے جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کے لئے ماورائے آئین اقدامات کے بھی جواز نکالے اور بدترین سیاسی محاذ آرائی کے ذریعے بھی جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کے راستے نکالتے رہے۔ انہوں نے موروثی سیاست کو فروغ دے کر ملک کا سیاسی نظام بھی شفاف اور مضبوط نہ ہونے دیا اور اپنے اپنے اقتدار کی باریاں لگا کر قومی دولت و وسائل کی لوٹ مار بھی اپنا حق بنا لیا۔ اس طرح عوام الناس کی شکل میں وسائل سے محروم طبقات راندۂ درگاہ اور ’’سٹیٹس کو‘‘ والے نظام میں برسراقتدار طبقات کے وارے نیارے ہونے لگے جبکہ سلطانیٔ جمہور کے ثمرات سے محروم عوام الناس کا اس سسٹم سے اعتماد اٹھنے لگا۔ دراصل مفاد پرست طبقات کا گٹھ جوڑ ہی منتخب جمہوری نظام سے عوام کو مایوس اور بدگمان کرنے کیلئے ہوا تھا جنہوں نے ارتکاز دولت کے راستے نکال کر بھی عوام کو وسائل سے محرومی کے جھٹکے لگائے چنانچہ اس غیر متوازن معاشرے میں، جہاں ہر قومی ادارے میں کرپشن کا ناسور پھلتا پھولتا اور ناچتا نظر آتا تھا، عمران خان نے استحصالی نظام کے خاتمہ اور کرپشن فری سوسائٹی کا نعرہ لگا کر سیاست کے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا تو سلطانیٔ جمہور کے ثمرات سے محروم رکھے گئے عوام کو ان میں اپنے روٹی روزگار کے گھمبیر مسائل کے حل کیلئے ایک کرشماتی لیڈر والی جھلک نظر آئی تو انہوں نے عمران خاں کے ساتھ اپنے اچھے مستقبل کی امیدیں وابستہ کر لیں اور ان کے تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعرے کو حرزجاں بنا کر ان کے اقتدار کی راہ ہموار کرنا شروع کر دی۔
اسی تناظر میں عمران خاں اور ان کی پارٹی کو 2018ء کے انتخابات میں عوام کی جانب سے وفاقی اور صوبائی حکمرانی کا مینڈیٹ حاصل ہوا اور انہوں نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل کے عملی اقدامات کے تحت کسی چور ڈاکو کو نہ چھوڑنے کے اعلانات کر کے نیب کے ذریعے بے لاگ احتساب کا شکنجہ کسنے کی شروعات کر دیں۔ اس عمل میں انہیں نیب اور عدلیہ سمیت تمام ریاستی ، انتظامی اداروں کی مکمل معاونت حاصل ہوئی چنانچہ سابق حکمران جماعتوں کی لیڈر شپ کی اکثریت نیب کے مقدمات کی زد میں آئی اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف قید و جرمانہ کی سزا کے علاوہ تاحیات نااہل بھی قرار پائے، اسی طرح ان کے خاندان کے ارکان کے علاوہ ان کے پارٹی عہدے داران بھی نیب کے مقدمات کی زد میں آ کر سزا یافتہ ہوئے۔ سابق حکمران پیپلز پارٹی کے قائدین اور عہدے داران کو بھی احتساب کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ نیب کی جانب سے احتساب کا پہیہ بدستور چلایا جا رہا ہے اور چیئرمین نیب بے لاگ احتساب کو نیب کی بہترین کارکردگی قرار دے کر کرپشن کے مکمل تدارک تک احتساب کا عمل اسی طرح جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
اس صورت حال میں تو آج وزیر اعظم عمران خاں کے تصورات کے مطابق کرپشن فری سوسائٹی اور ریاست مدینہ کے خدوخال اجاگر ہو کر وسائل سے محروم اور روٹی روزگارکے مسائل میں گھرے عوام کیلئے ان کے اچھے مستقبل کی نوید بن جانے چاہئیں تھے مگر اپنے اقتدار کے ساڑھے تین سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وزیراعظم عوام کو محض اخلاقیات کا لیکچر اور کرپشن کلچر کو ملک کی تباہی کا باعث قرار دیتے نظر آئے ہیں تو عوام کا حکومتی گورننس سے مایوسی کا اظہار بھی فطری امر ہو گا۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں آج بھی کرپشن کلچر حاوی ہے جس کی جڑیں ریاستی انتظامی اداروں تک میں بدستور پھیلتی اور مضبوط ہوتی نظر آتی ہیں جو سادہ سے سادہ الفاظ میں بھی حکومتی گورننس کی کمزوری سے ہی تعبیر ہوں گی۔ دوسری جانب بے وسیلہ عام آدمی کے لئے غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری کے مسائل پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر ہو چکے ہیں جو اس امر کے عکاس ہیں کہ حکومت کی اقتصادی مالیاتی پالیسیاں قطعی غیر متوازن ہیں۔ وزیراعظم قوم کی جن اخلاقیات کے خراب ہونے کا رونا روتے ہیں وہ تو درحقیقت بے پناہ اقتصادی مسائل کے باعث ہمارے معاشرے میں پنپ ہی نہیں پائیں۔ جب عوام کی اکثریت کو ہمہ وقت روٹی روزگار کے لالے پڑے ہوں اور وہ سرعت کے ساتھ خطِ غربت کے نیچے لڑھک رہے ہوں تو وہ کون سی اخلاقیات کا دامن تھام کر خود کو شرفِ انسانیت کے دائرے میں رکھ پائیں گے۔ اگر موجودہ حکومت کے اقتدار کے باقیماندہ ڈیڑھ سال میں بھی عوام کے معاشی حالات دگرگوں رہتے ہیں تو ان کے مضطرب جذبات کو اخلاقیات کی تھپکیوں سے سلانا ممکن نہیں ہو گا۔ عوام کو آج قومی دولت و وسائل کی لوٹ مار میں ملوث لیڈران کے بے لاگ احتساب سے زیادہ اپنے روٹی روزگار کے عذاب کی طرح مسلط ہوئے مسائل سے چھٹکارے کی ضرورت ہے جس کے لئے حکومت کو محض زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی پیش رفت کرنا ہو گی۔