الیکشن کمشن کے دو ارکان کے تقرر کا معاملہ
الیکشن کمشن ایک آئینی ادارہ ہے جو آئین کے تحت کام کرتا ہے اسکے سربراہ اور ارکان کا تقرر حکومت اور اپوزیشن کی باہمی مشاورت سے عمل میں آتا ہے۔ اسے سوئے اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ارکان کی مدتِ تعیناتی کے خاتمے اور انکی سبکدوشی کے باوجود نئے ارکان کی تقرری تاحال عمل میں نہیں آ سکی اور فریقین کے درمیان عدم اتفاق کے باعث یہ معاملہ ابھی تک معرضِ التواء میں پڑا ہوا ہے۔ گزشتہ روز ڈاکٹر شیریں مزاری کی سربراہی میں قائم پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بھی کسی فیصلے پر پہنچے بغیر ختم ہو گیا۔ اب یہ اجلاس /8 دسمبر کو منعقد ہو گا۔ حکومت نے پنجاب سے راجہ عامر اور کے پی کے سے جسٹس ریٹائرڈ اکرام کے نام تجویز کر رکھے ہیں جبکہ اپوزیشن نے پنجاب سے جسٹس ریٹائرڈ طارق افتخار اور کے پی کے سے سہیل الطاف کے نام تجویز کیے ہیں۔ شیریں مزاری کے مطابق اپوزیشن نے لاہور کے ضمنی الیکشن کے پیش نظر مشاورت کیلئے مزید وقت طلب کیا تھا۔ سو اب ارکان کی تقرری کا فیصلہ آئندہ ہونیوالے اجلاس میں ہو سکے گا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ارکان کا تقررمیرٹ پر کرنے کا عزم کررکھا ہے لیکن کسی ایک پر دونوں کا اتفاقِ رائے نہیں ہو پارہا۔ مذکورہ ارکان کی تقرری کے بغیر الیکشن کمشن مکمل نہیں ہو سکتا۔ اس مقصد کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ اس وقت الیکشن کمشن کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کیلئے انفراسٹرکچر سمیت بہت سے ضروری امور کی انجام دہی، مشینوں کی خریداری سے لے کر انکی تنصیب ، لیبارٹری کا قیام اور متعلقہ افراد و سٹاف کی تربیت کے مراحل سے بھی ابھی گزرنا ہے جبکہ اگلے عام انتخابات کا انعقاد بھی 2023 ء میں ہونا ہے جس کیلئے کماحقہ ، تیاری کی غرض سے الیکشن کمشن کے پاس خاطر خواہ وقت نہیں ہے۔ ان حالات میں الیکشن کمشن کے تمام ارکان کی موجودگی ازبس ضروری ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کا فرض ہے کہ وہ اس صورتِحال کا ادراک کرتے ہوئے پنجاب اور کے پی کے کے ارکان کے تقررکا آئین میں طے شدہ قواعد و ضوابط اور پیرامیٹرز کے مطابق فیصلہ کریں جو وقت کا تقاضا بھی ہے اور آئینی ضرورت بھی۔