سمجھ میں نہ آئے کہ کیا چھن گیا ہے

ماں ایسا عظیم اور متبرک لفظ ہے جس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ دنیا کے عظیم لوگ اپنی ماؤں کا پر تو ہوتے ہیں۔ تمام دنیا کے جتنے بڑے لوگ اس دنیا میں آئے انہو ں نے اپنی کامیابیوں کا سہرا اپنی والدہ کو قرار دیا۔ ویسے تو اماں حوا سے لیکر آج تک تمام مائیں عظیم ہیں لیکن حضرت بی بی آمنہؓ کیونکہ حضور اکرمؐ کی والدہ ماجدہ تھیں سارے مسلمان دنیا کے کونے کونے میں آپ کی عظمت کے گن گاتے ہیں۔ حضرت بی بی حلیمہ اگرچہ آپ کو دودھ پلایا کرتی تھیں لیکن تمام مسلمان ان کی عزت و توقیر کے قائل ہیں۔ حضرت بی بی فاطمہؓ عورتوں کی جنت میں سردار ہیں۔آپؓ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی والدہ ماجدہ ہیں۔ ان کی عظمت کو سلام۔ حضرت شیخ عبدالقار جیلانیؒ کی والدہ ماجدہ کا ہر گیارہویں شریف پر مقررین ذکر کرتے ہیں جس میں خاص کر ان کا اپنے صاحبزادے شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کو یہ نصیحت کرنا کہ بیٹے کبھی جھوٹ نہیں بولنا۔ آپؒ نے اپنی والدہ کی یہ نصیحت پلے باندھ لی ۔جب آپ کے قافلے کو لوٹ لیا گیا تو ایک ڈاکو نے ازراہ مذاق کہا کہ اے لڑے تیرے پاس بھی کوئی چیز ہے۔ آپؒ نے فرمایا کہ میری گڈری میں چالیس دینار سلے ہوئے ہیں۔ ڈاکو آپ کو اپنے سردار کے پاس لیکر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ لڑکا کہہ رہا ہے کہ میرے پاس چالیس دینار موجود ہیں۔ ان کا سردار گڈری کو پھاڑ کر دیکھتا ہے تو واقعی چالیس دینار پائے جاتے ہیں۔ وہ فوراً کہہ اٹھتا ہے کہ یہ لڑکا اپنی والدہ کا کتنا کہنا مانتا ہے اور کیا میں مسلمان ہوں کہ لوگوں کی جیبوں پر ڈاکے ڈالتا ہوں اور اپنے رب سے نہیں ڈرتا اسکے بعد تمام لوٹا ہوا مال قافلے کے لوگوں کو واپس کر دیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے معافی مانگ کر نیک لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے الغرض جتنے دنیا میں عظیم لوگ پیدا ہوئے اور انہوں نے اچھے اچھے کام کئے انکے پیچھے ان کی والدہ کی تربیت تھی کیونکہ ماں کی گود ہی ہر انسان کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ اچھی مائیں اپنے بچوں کو تربیت کے دوران ایسا کرنا اپنا فرض سمجھتی ہیں کہ ان کی سکھائی ہوئی باتیں آگے جاکر انکے بچوں میں اتنے اعلیٰ اور عمدہ خصوصیات پیدا کرتی ہیں جنکی وجہ سے وہ شخصیات عظیم بن جاتی ہیں۔ والد بچوں کی تربیت میں روزگار کے باعث وہ کردار ادا نہیں کر سکتا جو ماں کرتی ہے لہٰذا ایک اچھی ماں اپنی اولاد میں اپنے خیالات اور تربیت کے ذریعے بچوں میں باپ کی اچھی خصوصیات اور عادتیں منتقل کرتی ہے جس میں اولاد میں ماں کی محبت کے ساتھ ساتھ والد کی عظمت بھی پیدا ہو جاتی ہے عموماً دیکھا گیا ہے کہ بڑے اور صاحب کردار بچوں کی تربیت میں ماں کی تربیت کے ساتھ ساتھ اسکے والد کی اچھی خصوصیات منتقل ہو جاتی ہیں یہ بھی ماں کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔ یہ قول کتنا عمدہ ہے کہ ’’لوگوں تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دے دو میں تمہیںپڑھی لکھی قوم دے دوں گا‘‘ ماں کی گود کو سب سے پہلی درسگاہ اسلئے سمجھا جاتا ہے کیونکہ دیکھتے دیکھتے بچے جوان ہو جاتے ہیں۔ اچھی مائیں اپنے بچوں کو اچھی اچھی نظمیں بہترین اقوال اور تعلیم کے طور طریقے سمجھاتی ہیں۔ یہ تمام باتیں جو بچپن میں بچے اپنی ماں سے سیکھتے ہیں کبھی فراموش نہیں ہوتے وہ شاعر اور ادیب جو بچوں پر نظمیں لکھتے ہیں انکی تربیت کے بارے میں اپنے مضامین شائع کرتے ہیں مائیں انہیں زبانی یاد کر لیتی ہیں پھر بچوں کو سکھاتی ہیں حتیٰ کہ چھوٹے بچوں کو جب مائیں سلاتی ہیں تو اس میں لوریاں دیتی ہیں اور بچوں کو وہ لوری اتنا مزہ دیتی ہے کہ جس کو سن کر ان پر نیند غالب آجاتی ہے بعض بچے تو اپنی ماؤں سے فرمائش کرتے ہیں کہ ہمیں فلاں نظم اور فلاں کہانی سنائیں ۔بچوں کیلئے علامہ اقبال کی نظمیں اور صوفی تبسم کی نظمیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں اگر کسی بچے میں اچھی عادتیں پائی جاتی ہیں تو سمجھ لو اس میں اس کی ماں کا بڑا ہاتھ ہے۔ اب تو پاکستان میں لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں وہ ہر فیلڈ میں اپنے آپ کو منوا رہی ہیں جب وہ مستقبل کی مائیں بنیں گی تو انکی اولاد نہ صرف پڑھی لکھی ہو گی بلکہ ان پڑھی لکھی ماؤں کی وجہ سے ملک بھی ترقی کریگا ۔ ہمارے معاشرے میں جاہل لوگ اپنی بچیوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دیتے لیکن انہیں یہ بات معلوم نہیں کہ اگر ماں جاہل ہو گی تو ملک کی ترقی کا ہونا عبث ہے۔ ماں کی زندگی کو اولاد کیلئے بڑی نعمت سمجھنا چاہئے اگر لوگ اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ جتنا لڑکوں کی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں اتنا ہی لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دیں۔ پاکستان بنانے میں بھی ماؤں کا کردار فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کی والدہ ماجدہ بیگم رعنا لیاقت علی بیگم فیروز خان نون موجودہ وزیراعظم کی والدہ ماجدہ شوکت خانم کا کردار ان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
انسان کی زندگی کا یہ بہت اہم پہلو ہے کہ اگر اس کو کسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑ جائے تو وہ فوراً اپنی والدہ کو یاد کرتا ہے۔ اگر بیماری کی شدت بڑھ جائے تو اس کو کم کرنے کیلئے اپنی والدہ کو یاد کرتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماں کی محبت کبھی بھی دماغ سے محو نہیں ہوتی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ماں کے قدموں کے تلے جنت ہے ایک عام سا آدمی کار اوررکشہ چلانے والا یہ لکھواتا ہے کہ یہ میری ماں کا صدقہ ہے الغرض ماں پر جتنا بھی لکھا جائے وہ کم ہے۔زندگی کے ہر موڑ پر ماں کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔ جب ماں زندہ ہوتی ہے کہ ہر شخص بلا کثرت غیرے اپنی مشکلات ‘پریشانیاں اپنی والدہ سے کہہ دیتا ہے اسکے جواب میں والدہ جو جواب دیتی ہے اسی سے انسان کو اتنی تسلی ملتی ہے جسکا کوئی متبادل نہیں ہے۔ پچھلے دنوں میری والدہ کا انتقال ہو گیا بچپن سے لیکر بڑھاپے تک کا عرصہ اس طرح سامنے آگیا جس کا کبھی سوچا نہیں تھا۔ میں نے اخبار پڑھا ‘ سیکھا تو وہ بھی والدہ کا مرہون منت تھا ۔ تعلیم حاصل کرنے میں ان کا کردار مثالی تھا۔ غالب‘ میرتقی میر‘ داغ ‘ مومن ‘ مولانا ظفر علیخاں اور شاہ نامہ اسلام انہیں زبانی یاد تھا اگر کبھی کوئی مضمون لکھنا ہوتا تو اس کا مشورہ بھی ان سے لیتا تھا الغرض ان کی اعلیٰ تربیت میری زندگی کیلئے مشعل راہ تھی اگرچہ زندگی کے ایک دو سا ل انہوں نے بیمار ی کی حالت میں گزارے لیکن یہ تو تسلی تھی کہ وہ زندہ ہیں۔ایک آس سی بندھی رہتی تھی کہ کبھی نہ کبھی ہوش میں آجائینگی لیکن وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں انکی زندگی کا ہر پہلو اتنا شاندار اور مشعل راہ ہے کہ یہی لکھ سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے اگر ان کی خدمت میں کسی قسم کی کمی رہ گئی ہے تو معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ ان ماؤں کو جو زندہ سلامت ہیں انکے بچوں کو انکی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جن کی مائیں اس جہانِ فانی سے جا چکی ہیں انکو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے الغرض ماں کا متبادل کائنات میں کوئی نہیں ہے۔بقول شاعر
سمجھ میں نہ آئے کہ کیا چھن گیا ہے
یہ ماں چھن گئی کہ خدا چھن گیا ہے