قرارداد پرحریت کانفرنس کے اظہار اطمینان پر او آئی سی کو اب اپنا مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا

بھارت نے بگلیہار ڈیم میں پانی روک کر چناب خشک کردیا اور بھارتی کٹھ پتلی عدلیہ کیخلاف اکانومسٹ کی رپورٹ
عالمی جریدے دی اکانومسٹ نے جمہوریت کا مصنوعی بھارتی چہرہ بے نقاب کر دیا۔ رپورٹ کے مطابق مودی بھارت کو یک جماعتی ریاست بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ بھارت میں 60 ہزار سے زائد مقدمات زیرالتواء ہیں جن کی سماعت کرنا بھارت کی عدالتیں بھول چکی ہیں۔ کٹھ پتلی بھارتی عدالتیں حکومتی من پسند لوگوں کی پشت پناہی میں مصروف ہیں۔ گزشتہ سال مودی نے کشمیر پر غاصبانہ حکمرانی مسلط کی۔ ہزاروں بے گناہ کشمیریوں کو حراست میں لیا گیا۔ بھارت کی اعلیٰ عدلیہ کشمیر کو نظرانداز کئے ہوئے ہے۔ دہلی پولیس نے مسلمانوں پر شدید ظلم ڈھائے‘ عدلیہ خاموش رہی۔ مودی کے دور اقتدار میں بھارتی فوج کو بھی سیاست میں گھسیٹا گیا۔ سی ڈی ایس کے عہدے پر جنرل بپن راوت کی تعیناتی سیاسی امور میں مداخلت کا ثبوت ہے۔ مودی نے الیکشن سے پہلے فوج کا سہارا لیا۔ لداخ میں چین کے ساتھ تنازعہ کا بھرپور پراپیگنڈا کیا گیا۔ مودی نے بھارتی الیکشن کمیشن کی غیرجانبداری کو متنازعہ بنایا۔ مودی کے دور میں آزادی اظہار پر بھی غاصبانہ قانون بنائے گئے۔ کانگرس کی سیاسی تنزلی نے مودی کی بی جے پی کو فائدہ پہنچایا۔
اقوام متحدہ اور بھارت کے کندھے کے ساتھ کندھا ملانے والے ممالک کی آنکھیں اکانومسٹ کی رپورٹ سے کھل جانی چاہئیں۔ لوگوں کی اپنے مسائل کے حل اور مشکلات کے تدارک کیلئے ریاست کی طرف نظریں ہوتی ہیں۔ ریاست کی زمامِ کار مودی جیسے سفاک متعصب اور ظالم و جابر لوگوں کے ہاتھ میں آجائے تو امید کی کرن صرف عدلیہ ہوتی ہے۔ بھارتی عدلیہ حکمرانوں کی طرح اقلیتوں سے کینہ بغض اور عناد رکھتی ہوں تو انصاف کہاں تلاش کیا جائے۔ اسی بھارتی عدلیہ نے بابری مسجد کی شہادت پر انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنے کے بجائے حومتی اور ہندو اکثریت کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ دیکر انصاف کا خون کر دیا۔ 5 اگست 2019ء کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے شب خون پر معاملہ سپریم کورٹ گیا تو حکومت کی طرف سے سب اچھا کی رپورٹ کو تسلیم کرتے ہوئے مسلم اقلیت کے درد کو فزوں تر کر دیا۔ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں بہنے والے 33 دریائوں کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کا معاملہ لیکر سپریم کورٹ گئی تھی۔ اس نے جھٹ سے اسکی اجازت دیدی۔ اس کا مقصد پاکستان آنیوالے پانی کا آخری خطرہ روکنے کی سازش تھی جس میں بھارتی سپریم کورٹ بھی حصہ بن گئی۔ اس فیصلے کے منفی اثرات پاکستان کی زراعت پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اسکی تازہ ترین مثال دریائے چناب میں پانی کی آمد میں شدید کمی ہے۔ دریا کا بڑا حصہ خشک ہوگیا ہے۔ ہیڈمرالہ کے مقام پر دریائے چناب سے نکلنے والی نہر مرالہ راوی لنک مکمل طور پر بند ہو گئی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت پاکستان کی ملکیت دریائے چناب میں ہمہ وقت 55 ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کا پابند ہے جس کی مقدار پانچ ہزار کیوسک پر آگئی ہے۔ بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر خلاف ورزی کررہا ہے‘ ڈیمز کی غیرقانونی تعمیرات جاری ہیں۔ یہ حالات بھی تنگ آمد بجنگ آمد کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
بھارت رعونت اور توسیع پسندانہ عزائم کا اظہار اسکے ہمسایہ ممالک کے ساتھ معاندانہ رویوں سے بھی ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ نیپال اور بھوٹان جیسے چھوٹے ممالک تنگ آکر سر اٹھانے لگے اور اپنے مقبوضہ علاقے خالی کرنے کے مطالبات کر رہے ہیں۔ مطالبات سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ بھارت ادھر پاکستان اور چین کے ساتھ بھارت شمنی پر اترا ہوا ہے۔ لداخ کو یونین ٹریٹری کا حصہ بنالیا۔ مقبوضہ کشمیر پر شب خون مارا اور ادھر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی اپنا حق جتانے لگا۔ چور مچائے شور کی اس سے بڑی مثال کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ چین کو سبق سکھانے کیلئے لداخ میں پنگ کانگ جھیل پر کمانڈوز تعینات کر دیئے‘ ان کو جدید اسلحہ سے لیس کیا جارہا ہے۔ چین سے کشیدگی کے دوران بھارتی فوج بکریوں کی طرح بھاگی تھی۔ نہ جانے کس کی تھپکی پر چوہے کی طرح مودی سرکار دم پر کھڑی ہو گئی ہے۔ بھارت کی توسیع پسندی‘ ظلم و بربیت کے آگے خطے کے اس سے متاثرہ ممالک کے اتحاد کے ذریعے ہی بند باندھا جا سکتا ہے جس کیلئے حالات سازگار ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا بہترین حل اقوام متحدہ کی قراردادیں ہی ہیں جن میں کشمیریوں کو استصواب کا حق دیا گیا ہے۔ بھارت انہیں یہ حق دینے کی اقوام متحدہ کی تجویز کو تسلیم کر چکا ہے مگر اس سے راہ فرار اختیار کی اب بالکل ہی انکاری ہے۔ اسکی طرف سے موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ وادی میں انتخابات استصواب کا متبادل ہیں جو ایک بودی دلیل ہے اور انتخابات کی ساکھ کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہاں آجکل مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر سے آمدہ رپورٹس کیمطابق اکثر علاقوں میں ٹرن آئوٹ ایک فیصد سے بھی کم رہا۔ ریاستی الیکشن کمشنر شرما نے اعتراف کیا کہ ضلع پلوامہ میں ٹرن آئوٹ سات فیصد رہا اور یہی پہلے مرحلے میں کسی شہر میں زیادہ سے زیادہ تھا۔
نائیجیریا میں او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں کشمیریوں کے حق میں قرارداد پر حریت کانفرنس نے اظہار اطمینان کیا اور پاکستان کی کوششوں پر اس کا شکریہ ادا کیا۔ او آئی سی نے جس طرح کشمیر ایشو پر پاکستان کے موقف کی تائید کی اس پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ او آئی سی کا اعلامیہ کشمیر کاز کی حمایت اور بھارت کو یک زبان ہو کر تنبیہہ کی گئی ہے۔ او آئی سی سے پاکستان کی بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں۔ او آئی سی ایک طاقتور عالمی تنظیم ہے‘ وہ بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل پر مجبور کر سکتی ہے۔ بشرطیکہ رکن ممالک اپنے اپنے مفادات اور مصلحتوں کے لبادوں سے نکل آئیں۔ اب مذمتی قراردادوں سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا تو اسکے ساتھ تعلقات منقطع کرنے سے گریز نہ کیا جائے۔ بھارت 57 ممالک کے ساتھ تعلقات کے خاتمے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا او آئی سی کو جرأت مندانہ کردار ادا کرنا ہوگا اور اقوام متحدہ کو اسکی منظور کی گئی قراردادوں پر عملدرآمد کی طرف لانا ہوگا۔