منگل ‘ 15؍ ربیع الثانی ‘ 1442ھ‘ یکم دسمبر 2020ء

سیاست بندگلی میں داخل ہو تو حادثات جنم لیتے ہیں۔ شیخ رشید
یہ دانشمندانہ مشورہ دیتے ہوئے شیخ جی نے مولانا فضل الرحمن سے کہا ہے کہ وہ بند گلی میں داخل نہ ہوں۔ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ سیاست کی بند گلی میں داخلے سے حادثات جنم لیتے ہیں والی بات سو فیصد درست ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کس کو بند گلی میں دھکیل رہا ہے۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن دو متضاد انتہائوں پر کھڑی ہے۔ دونوں درمیان کی کوئی راہ نکالنے پر تیار نہیں۔ تخت یا تختہ دونوں کا ماٹو ہے۔ بات سمجھنے سمجھانے سے نکل چکی ہے۔ جب لوگ زبان سے بات چیت کی بجائے ڈنڈوں کی زبان میں بات کرنے لگیں تو پھر جان لیں کہ اب خیر نہیں شر ہی برآمد ہو گا۔ ویسے بھی ہماری مذہبی جماعتوں کا طرہ امتیاز یہی ڈنڈ بردار ٹولے ہوتے ہیں۔ ہمارے کالج کے دور میں یہ طرہ امتیاز جمعیت طلبہ کو حاصل تھا جس کے ڈنڈا بردار کارکن ضیاء الحق حکومت کی سرپرستی میں تعلیمی اداروں کو سرخوں سے پاک کرنے کا فری ہینڈ ملا ہوا تھا۔ یہ تو انصاف سٹوڈنٹس اور دیگر لبرل گروپوں کی کامیابی ہے کہ انہوں نے جامعہ پنجاب میں اور دیگر کالجوں میں ان کا زور توڑا۔ پھر سیاست میں ڈنڈا بردار گروپوں کی ایسی وبا پھیلی کہ جے یو آئی والوں نے تو باقاعدہ ڈنڈا بردار فورس قائم کر لی جو کالی سفید دھاریوں والے ڈنڈوں سے لیس رہتی ہے۔ اب پولیس کا روایتی ہتھیار بھی یہی ڈنڈا ہوتا ہے جسے لاٹھی کہتے ہیں اور لاٹھی چارج کا مطلب سمجھ میں آتا ہے۔
٭٭٭٭٭
چیف انجینئر میپکو بلوں کی ریکوری کے لیے خود گلیوں میں نکل آئے
کیا کبھی لیسکو ، میپکو ، فیسکو کے چیف انجینئر حضرات بجلی چوری روکنے کیلئے کنڈے لگا کر بجلی چوری کرنے والوں کیخلاف یا خود اپنے ادارے کے ملازمین جو بجلی چوری کرواتے ہیں کیخلاف ایکشن لینے کیلئے اس طرح متحرک ہوئے ہیں باہر نکلے ہیں۔ صرف بجلی کے بلوں کی ریکوری کے لیے گلی محلوں میں نکلنا کوئی بڑی دلیرانہ کارروائی نہیں۔ اصل بات تو تب ہوتی جب یہ بڑے بڑے بجلی کے نادہندگان کے ذمے کروڑوں روپے کی ریکوری کرانے نکلتے غیر قانونی کنڈے اُتروا کر اور وصولیاں کر کے دم لیتے ، مگر ان بڑے بجلی چوروں اور نادہندگان کا سامنا کرنے کا حوصلہ کسی میں کہاں۔ یہی وجہ ہے کہ بجلی کی وافر مقدار پیدا کرنے کے باوجود ہم لوڈشیڈنگ پر قابو پانے میں ناکام ہیں بجلی کی مسلسل فراہمی میں ناکام ہیں کیونکہ بجلی کی بڑی مقدار راستے میں ہی چوری ہو جاتی ہے۔ اس تمام تر چوری کی سزا عام صارف کو بھگتنا پڑتی ہے اور انکے بجلی کے بل کم نہیں ہوتے، انہیں ہر ماہ بھاری بل جمع کرانے پڑتے ہیں۔ بیشتر مقامات پر ایک عدد بلب ایک عدد پنکھے اور ایک عدد ٹی وی کا بجلی بل 3 ہزار سے زیادہ آتا ہے۔ صارف بے چارے چپ رہتے ہیں کیوں کہ …؎
جائیں تو جائیں کہاں
سمجھے گا کون یہاں درد بھرے دل کی زبان
ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔
٭٭٭٭٭
برائلر 328 روپے فی کلو، انڈے 177 روپے فی درجن‘ لوگ پریشان ہو گئے
ابھی تک تو یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ مرغی پہلے آئی یا انڈہ پہلے ہوا۔ اس مزیدار بحث کا نتیجہ آج تک کچھ نہیں نکلا تھا مگر اس وقت جس طرح برائلر کا گوشت 22 روپے فی کلو مہنگا ہو کر انڈے پر اپنی فضیلت ثابت کر رہا ہے وہ لوگوں کو پہلے مرغی کی آمد پر قائل کر رہا ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انڈے بھی کسی صورت ہار ماننے کو تیار نہیں ان کی قیمت بھی آسمان کو چھو رہی ہے۔ وہ ایک روپے درجن مہنگے ہو کر 177 فی درجن ہو گئے ہیں یوں ایک انڈا 18 روپے کا ہو گیا ہے۔ یہ کوئی شتر مرغ یا ڈائنوسار کا انڈا نہیں عام ولایتی جسے فارمی مرغی کہتے ہیں کا انڈا ہے۔ ایک وقت تھا جب ولایتی یعنی فارمی مرغی کو اور فارمی انڈے کو کوئی منہ بھی نہیں لگاتا تھا۔ آج یہ حال ہے کہ منہ ان کے ذائقے کو ترسنے لگے ہیں۔ کیونکہ گرانی کے سبب یہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گئے ہیں۔ مچھلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو تو لوگوں نے ان کی دم اور سر پکا کر اپنا مچھلی کھانے کا شوق پورا کرلیا۔ گوشت مہنگا ہوا تو لوگ سری، دل اور کلیجی کھا کر خوش ہونے لگے۔ مگر مرغی کیا کریں ان کی تو صرف چونچ اور پنجے ہوتے ہیں۔ اب کھائیں تو کھائیں کیا۔ پوٹا اور کلیجی بس گزارے لائق ہے سچ کہیں تو ایک نوالے کی مار ہیں۔ حکومت انڈوں اور مرغیوں کی قیمت میں بے تحاشہ اضافے پر کنٹرول کرے۔ دالیں اور سبزیاں پہلے ہی گوشت کے بھاؤ بک رہی ہے۔ صرف ہوا ہی رہ گئی جو کھانے کے لیے مفت میسر ہے۔ پانی کا تو بل آتا ہے یوں اس کا پینا بھی مفت نہیں رہا۔
٭٭٭٭٭
بی بی شہید کے نام پر بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو گھر دئیے گئے: ناصر شاہ
پیپلز پارٹی کے وزیروں کی ایک اپنی ہی دنیا ہے جس میں وہ مست رہتے ہیں۔ اب سندھ کے وزیر ناصر شاہ کو ہی دیکھ لیں موصوف کو ٹی وی پر آنے کا بہت شوق ہے۔ اس شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ جب بھی ٹی وی پر آتے ہیں نت نئی شرلیاں چھوڑتے ہیں۔ باقی باتیں چلیں قابل برداشت ہیں ہضم ہو جاتی تھیں۔ مگر یہ سندھ میں ہزاروں لوگوں میں سستے گھر بنا کر تقسیم کرنے والی بات کسی طور ہضم نہیں ہو رہی۔ جس سندھ میں 10 بارہ سالوں میں پی پی کی حکومت زیر تعمیر تعلیمی ادارے ، ہسپتال ، ٹوٹی سڑکیں مکمل نہ کرا سکی وہاں یہ ہزاروں سستے گھر کہاں بنائے گئے کب بنے اور کب تقسیم ہوئے۔ اس کا جواب ناصر شاہ پر ہے۔ بے شک موجود پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے بھی کروڑوں نوکریوں اور گھروں کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا جو آدھی مدت ختم ہونے کے باوجود ابھی تک شروع ہوتا ہوا نظر نہیں آتا تو کڑکی کے اس ماحول میں بھلا پیپلز پارٹی کے وزیروں کو کیا پڑی ہے لمبی لمبی چھوڑنے کی۔ ایسی باتیں صرف سابق وزیر اعلیٰ جناب قائم علی شاہ کو ہی زیب دیتی ہیں۔ انہی پر یہ سب سجتا تھا۔ وہ باغ و بہار انسان ہیں عمر کے اس حصے میں بھی انکی ہر بات لاجواب ہوتی ہے۔ انکے بارے میں کہا جا سکتا ہے۔
تم چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو
جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو
٭…٭…٭