-1 اگر ہم اپنی 72 سالہ تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ حکومتِ وقت اور اپوزیشن میں سیاسی چشمک چلتی رہتی ہے۔ بسااوقات یہ مخاصمت میں بھی بدل جاتی ہے۔ ایوب خان کو ہٹانے کے لیے دس سال لگے۔ آمر تو چلا گیا لیکن اس کی جگہ ایک اور آمر آ گیا۔ علاج بیماری سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہوا۔ جنرل یحییٰ خان اپنی تباہی کا خود مصنف تھا۔ ملک دولخت ہوا تو اس کا ٹھہرنا ممکن نہ رہا۔ جب مستقبل کا مورخ پاکستان کے بدترین حکمرانوں کا ذکر کرے گا تو اس کا ہیولا پردہ ذہن پر ضرور اُبھرے گا۔ جس قسم کی تحریک بھٹو مرحوم کے خلاف ابھری اس کا تصور رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ بے شمار لوگ لقمہ اُجل بنے۔ ان گنت لوگوں نے جیلوں کی صعوبتیں برداشت لیکن حکومت نہ گری ۔ وہ تو ’’بھلا‘‘ ہو جنرل ضیاء الحق کا جو ممد اور معاون ثابت ہوا۔ جنرل صاحب نے قریباً دس برس تک حکومت کی کئی احتجاج ہوئے لیکن ان کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ تحریک کے دنوں ایک لطیفہ سرزد ہوا۔ نظامِ مصطفی تحریک کے بیشتر لیڈروں کو ساہیوال جیل میں ڈال دیا گیا۔ وزیر جیل خانہ جات خالدملک کے کان میں بھنک پڑ گئی کہ سپرنٹنڈنٹ جیل اسیران کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے ا ور انہیں سونے کے لیے تکیے فراہم کرتا ہے۔ وہ بڑے جُزبُز ہوئے۔ اس کی ڈانٹ ڈپٹ کی۔ اس کو حکم دیتے ہوئے بولے۔ جیل جیل ہونی چاہئے۔ یہ کوئی پکنک سپاٹ نہیں ہے۔ قیدی کو قیدی سمجھا جائے۔ کل کلاں اگر میں بھی آ جائوں تو کوئی نرمی نہ برتی جائے!
اب سے اتفاق کہیے یا مکافات عمل مارشل لاء کے دوران انہیں قیدکر کے اسی جیل میں بھیج دیا گیا۔ ان دنوں ہمارے دوست چودھری ندیر IG جیل خانہ جات تھے۔ ان سے سپرنٹنڈنٹ نے پوچھا ۔ کیا کیا جائے؟ ’’اس کی پرانی خواہش کا احترام کیا جائے‘‘ چودھری صاحب کے لہجے میں بلا کی تلخی تھی۔ جب ملک صاحب کو بغیر تکیے کے زمین پر لٹایا گیا تو چنددنوں میں ہی ان کی حالت غیر ہو گئی۔ اکثر میر کا شعر زیرلب پڑھتے وہ ہاتھ سو گیا ہے۔ سرہانے دھرے دھرے۔ ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے بولے۔ ’’مجھے علم نہیں تھا کہ جیل جیل ہی ہوتی ہے۔‘‘
-2 جب میں نے سروس کا آغاز کیا تو مجھے جیل ٹریننگ کے لیے مچھ بھیج دیا گیا۔ میں نے وہاں تین ماہ گزارے۔ ملک صاحب نے درست کہا تھا۔ جیل کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے۔ فیض نے کہا تھا
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
اسکا اطلاق حکمرانوں پر بھی ہوتا ہے جبل کی اپنی دنیا ہوتی ہے جہان رنگ و بو سے یکسر مختلف۔ یہ وہ دنیا ہے جس کا کوئی رنگ ہوتا ہے نہ روپ اس میں نہ سیب کے پھولوں کی چاندی چٹکتی ہے نہ خوبانیوں کے پیڑ کا کندن دمکتا ہے۔ اس کی کوئی شام زلفِ محبوب کی خوشبو اپنے ساتھ نہیں لاتی۔ کسی صبح کا آغاز کُنج لب سے نہیں ہوتا۔ اس میں امیدوں کی کوئی بارش نہیں ہوتی خوشی کی کوئی قوس قزح نہیں نکھرتی۔ جذبات کے سمندر میں کوئی مدوجزر نہیں ابھرتا۔ حسین خیالات کے طلسم کدے میں کوئی بدرِ منیر قدم نہیں رکھتا۔ یہ یادوں کی دنیا ہے جس میں ڈوبتی ہوئی امیدوںکے مدھم چراغ ٹمٹماتے رہتے ہیں۔ یہ ان آرزئوں کی دنیا ہے جو لب پر آنے سے پہلے ہی سینے کے قبرستان میں دفن ہو جاتی ہیں۔ دبی دبی آہیں ، جھکی جھکی نظریں ، گھٹی گھٹی دھڑکنیں سولائے ہوئے چہرے، کملائی ہوئی جوانیاں ، بھپتی ہوئی ذہانت ، ڈوبتی ہوئی صداقت ، منزل کا پتہ نہ نشانِ منزل… گوشت پوست کے انسانوں کے لیے جیل کاٹنا مشکل عمل ہے۔ نیلسن منڈیلے تو صدیوں بعدپیدا ہوتے ہیں۔
-3 ضیاء الحق نے بعد از خرابی بسیار محدود جمہوریت کا تجربہ کیا۔ مقصد جمہوریت بحال کرنا نہیں بلکہ ’’بچا جمورا‘‘ لانا تھا۔ اس مقصد کے لیے لاغر محمد خان جونیجو کو چُنا گیا۔ جنرل مرحوم کو غالباً اس بات کا علم نہیں تھا کہ طاقت کی اپنی منطق ہوتی ہے۔ وزیر اعظم نے آہستہ آہستہ کل پرزے نکالنے شروع کئے۔ جب جنرل کو فنڈز کی ضرورت ہوتی تو لیت و لعل سے کام لیتے۔ بیرونی دورے پر جانے والے لوگوں کی فہرست آدھی کر دیتے۔ جنرل صاحب وزیراعظم تو لے آئے لیکن طوطے کی جان کا آلہ اپنے پاس رکھا جونیجو صاحب بیرونی دورے پر تھے تو انہیں یوگنڈا کے عیدی امین کی طرح برطرف کر دیا گیا۔ مرنے والے کی طرح جانے والے کی آخری خواہش بعض اوقات پوری کی جاتی ہے۔ ذرا خواہش تو دیکھیں! جنرل کوکہا مجھے سندھڑی جانے کیلئے ایئرفورس کا جہاز فیلکن دیں۔ میری جگہ الہٰی بخش سومرو کو وزیراعظم نہ بنائیں۔ پہلی پر جنرل صاحب مسکرا دیئے۔ دوسری پر کہا It is none of Your Business۔
جنرل کی ناگہانی موت کے بعد چوہے بلی کا کھیل شروع ہو گیا۔ محترمہ بینظیر اور میاں محمد نوازشریف باریاں لینے لگے۔ ایک اقتدار میں ہوتا تو دوسرا اس کو ہٹانے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگاتا۔ لانگ مارچ‘ ہڑتالیں‘ دھرنے‘ ہر حربہ آزمایا جاتا جو اکثر ناکام رہتا۔ بالفرض پٹتے بھی تو پٹانے والا کوئی اور ہوتا …؎
یہ آئینہ میرا عکس ہے
پس آئینہ کوئی اور ہے
اب کے نیا جال پرانے ’’شکاری‘‘ عمران خان کی حکومت کے خلاف گیارہ پارٹیوں نے اتحاد کر لیا ہے۔ مقصد حکومت کو چلتا کرنا ہے۔ اگر پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تو اب کیسے ممکن ہوگا؟ خان خود 126 دن تک اسلام آباد کی دیواروں سے سر پٹختا رہا مگر گوہر مقصود ہاتھ نہ آیا۔ کیا یہ ’’احمقانہ‘‘ قدم ہے۔ سعی لاحاصل ہے یا There is Method in Madness حزب اختلاف کا استدلال ہے‘ لیکن اب کے سرگرانی اور ہے۔ حکومت کے پائوں اکھڑ چکے ہیں۔ مہنگائی‘بیروزگاری۔ ’’بیڈ گورننس‘‘ کا عفریت اپنے مہیب جبڑے کھولے کھڑا ہے۔ عوام کیلئے دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہو گیا ہے۔ ’’لانے والے بھی اب سوچ میں پڑ گئے ہیں۔ کوئی شخص ہو یا ادارہ۔ اپنا دشمن نہیں ہوتا۔ بیورو کریسی بوجوہ بددل ہو چکی ہے۔ کرکٹ میں تو انڈر 19 ٹیم چل جاتی ہے۔ حکومت سازی میں مشکل ہے۔ وغیرہ ان کا خیال ہے کہ مادہ پک چکا ہے۔ عوام بالآخر باہر نکل آئیں گے۔ عوام جب بھی تنگ آکر سڑکوں پر آتے ہیں تو ’’دما دم مست قلندر‘‘ ہو جاتاہے۔ بے کنٹرول کرونا حکومت کو صدر ٹرمپ کی طرح بے دست و پا کر دے گا۔
حکومت اس کے برعکس مطمئن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تحریکوں سے اگر پہلے حکومتیں نہیں گریں تو اب کیسے گرینگی؟ کچھ خیال یہ بھی ہے…؎
تو چرا باشی بفکر مبتلا
کارسازما بے فکر کارما
غائبی امداد بھی تو آخر کچھ چیز ہے۔ ڈانواں ڈول معیشت سنبھل چکی ہے۔ ہر آنے والا دن معاشی نوید مسرت لائے گا۔
بالآخر ہوگا کیا؟ ہمارے دوست ملک صاحب کہنے لگے ’’یہ اعصاب کی جنگ ہے سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا۔کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی۔ دونوں فریق جہاندیدہ اور گرم و سرد چشیدہ ہیں۔‘‘
یہ گرگ آشتی ہے! تو پھر کون جیتے گا؟
ہم نے پوچھا۔ بولے۔
Whoever Blinks First
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024