میر خاکی زندہ تر‘ پائندہ تر‘ تابندہ تر نکلے

علامہ خادم حسین رضویؒ نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور ہماری آنکھیں کھول دیں۔ زندگی میں مخالفتوں کا بھرپور سامنا کرنا پڑا۔ میڈیا ٹرائل سے بھی گزرے‘ جیل کی سلاخیں دیکھیں‘ تھانے‘ کچہریوں‘ عدالتوں سے بھی گزر ہوا لیکن اپنے مشن پر آنچ نہیں آنے دی۔ حیدر کرار علیؑ کے عاشقان اچھے ہی شیر ہوتے ہیں۔ ٹانگوں کی معذوری کے باوجود استقلال بے مثل تھا۔ انکے دھرنوں کے باوجود بن آنکھیں جنازہ دیکھ کر ایسی کھلیں کہ کھلی رہ گئیں۔ پھر ہر کوئی سوشل میڈیا پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتا دکھائی دیا۔ رحلت کی خبر بیک پیج پر چھاپنے والے آزاد انگریزی پریس نے نماز جنازہ کی تصویر اگلے روز فرنٹ پیج پر چھاپی۔ سب کو ادارتی نوٹ لکھنے کی بھی توفیق نہ ملی۔ منافقوں کے سینوں پر جنازہ دیکھ کر سانپ لوٹ گیا۔ قدرت نے دکھا دیا غلامِ رسولؐ سچا ہو تو فرشتے بھی زمین پر آکر سفر آخرت سجاتے ہیں۔ وہ حافظ اور مفسرِ قرآن تو تھے ہی‘ شیخ الحدیث بھی تھے۔ استاد الاساتذہ تھے اور حافظ کلام اقبال بھی تھے۔ شاعر کے درج دیل اشعار انکی شخصیت پر منطبق ہوتے ہیں۔
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے‘ ادھر نکلے‘ ادھر ڈوبے ادھر نکلے
٭…٭…٭
زمیں سے نوریانِ آسماں پرواز کہتے تھے
یہ خاکی زندہ تر‘ پائندہ تر‘ تابندہ تر نکلے
شاید وہ عشق نبیؐ کا سبق پڑھانے آئے تھے اور اپنا کام کرکے چل دیئے۔
آئے عشاق‘ گئے وعدہ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخ زیبا لے کر
علامہ کی وفات بلاتفریق مسلک ختم نبوت کے تمام پروانوں کیلئے بڑا دھچکا ہے جس جرأت و بہادری سے وہ باطل کو للکارتے رہے‘ اسکی نظیر منافقت کے اس دور میں ملنا مشکل ہے۔ تحفظ ناموس رسالت کے حوالے سے علامہ نے نئی بھرپور مہمیں چلائی تھیں۔ اپنی تقریروں میں اقبال کی شاعری سے سماں باندھ دیتے تھے۔ ان کا انداز بیان بہت سوں کو ناگوار گزرتا تھا۔ گستاخوں اور بے ادبوں کیلئے وہ شمشیر بے نیام تھے۔ انکی خطابت ایسی تھی کہ کسی کا بھی اٹھنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ وہ ہر شخص کی روح کو گرما دیتے تھے۔ بزدل کو بھی دلیر بنا دیتے تھے۔ وہ جھکنے اور بکنے والے نہیں تھے۔ چٹان کی طرح ڈٹنا ان کا شیوہ تھا۔ انکی جماعت تحریک لبیک پاکستان کو ملکی سطح پر پذیرائی ملی۔ ان کا دور لبیک یارسول اللہؐ تھا۔ انکے جنازے پر بھی فضا میں اسی نعرے کی گونج تھی۔ اسلام آباد کے دھرنے میں انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرکے اپنا سفیر پیرس سے واپس بلالیا جائے۔ علامہ جیسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ مسلکی اختلافات کے باوجود انکے سچے عاشق رسولؐ ہونے کی وجہ سے ملک کے تمام مکاتب فکر کے پیروکار ان سے عقیدت رکھتے تھے۔ ادھر وزیراعظم نے عوام کو یقین دہانی کرائی ہے کہ کاروبار اور فیکٹریاں بند نہیں کی جائیں گی۔ ہم لوگوں کو کرونا سے بچاتے بچاتے بھوک سے نہیں مار سکتے۔ فیکٹریوں‘ دکانوں‘ شاپنگ مالز اور دیگر عوامی جگہوں پر ایس او پیز کو یقینی بنایا جائے۔ پاکستان نہ تو کینیڈا کی طرح تمام شہریوں کو ماہانہ خرچ فراہم کرکے گھر بٹھا سکتا ہے اور نہ ہی بھارت کی طرح مکمل کرفیو نافذ کرکے معیشت کو تباہی سے دوچار کرکے عوام کو موت کے منہ میں دھکیلنے کا رسک لے سکتا ہے۔ پاکستانی عوام میں بیشتر دیہاڑی دار ہیں۔ گھروں سے باہر نکلنے والے کم لوگ ہی ماسک پہنتے ہیں۔ ہر جگہ ایس او پیز کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ بڑے شہروں کی فضا آلودگی کی خطرناک حدوں کو پار کرچکی ہے۔ 20 فیصد بھٹوں نے اب تک دھوئیں کے اخراج کے حوالے سے بہتر ٹیکنالوجی اپنائی ہے۔ موسم سرما میں آلودگی حدود پار کرجاتی ہے۔ آلودگی والے سارے بھٹے بند ہو جاتے ہیں تو اینٹوں کی قیمتوں میں خاصا اضافہ ہو جاتا ہے۔ انسداد تجاوزات اپریشن ہمیشہ ناکام ہوا ہے۔ پانی کی نکاسی میں مسائل رکاوٹیں جوں کی توں ہیں۔ نالوں کی صفائی کا کسی کو بھی خیال نہیں۔ ٹھیکیدار گلی محلوں میں کھدائی کے بعد غائب ہو جاتے ہیں۔ ہر تاجر نے اپنی دکان کے آگے ٹھیلے لگوا رکھے ہیں۔ ہر فٹ پاتھ پر تاجروں کاقبضہ ہے۔ اپریشن شروع ہوتے ہی سب اکٹھے ہوتے اور مشتعل ہو جاتے ہیں۔ انجمن تاجران اور چیمبر آف کامرس جائز کاموں میں حکومت کا ساتھ کیوں نہیں دیتیں؟ دنیا کے آزاد‘ کامیاب اور ترقی و کامیابیوں کی شاہراہ پر گامزن جمہوری ملک کا چلن ہم کب اپنائیں گے۔ اپنی زندگی میں فوجی ڈسپلن کب لائیں گے۔ دکاندار اور ریڑھی والے ریٹ لسٹوں کی دھجیاں کب تک اڑائیں گے۔ ادرک کا سرکاری ریٹ 555 جبکہ 800 کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔ قصائیوں نے ریٹ 450 لکھا ہوا ہے لیکن بڑا گوشت ہڈی والا 500 سے کم میں ایک بھی دکاندار دینے کو تیار نہیں۔
اس وقت بیشتر مالیاتی اشارے مثبت ہیں۔ تاہم پٹرولیم سیکٹر میں قومی خزانے کو پہنچنے والے 122 ارب روپے کے نقصان کی تحقیقات اور اسکے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی ضروری ہے۔ 2018ء سے 2020ء تک تین سال ایل این جی ٹرمینل کو پورا استعمال نہ کیا جا سکا جس سے 25 ارب روپے ڈوبے۔ فرنس آئل سے بجلی بنانے پر سردیوں میں 30 ارب کا نقصان ہوگا۔