میری زندگی کا بیشتر حصہ بلکہ پوری جوانی کے 28سال شریف خاندان کے ساتھ گزرے ہیں ۔ اس میں سب سے زیادہ وقت بڑ ے میاں صاحب جناب میاں محمد شریف صاحب ؒ کے ساتھ گزرا ہے ان 28سالوں میں تقریباً ہر جمعہ اورتہوار کے دن میں اور میرے والد صاحب میاں صاحب کے ساتھ نما زاور میلاد کی محفلوں میں شامل ہوتے تھے ۔ ان میں پرویز مشرف کے آنے کے بعد دو سال بڑے میاں صاحب کے حکم پر کینیڈاجلا وطنی میں گزارے انھوں نے مجھے بالکل بچوں کی طرح پیار کیا اور میری خوش قسمتی ہے کہ ان کی قبر بنانے سے لحد میں اُتارنے تک کا شرف مجھے اور میرے والد صاحب کو ملا ۔ یہ بڑے میاں صاحب کی دعائوں اور بہترین پلاننگ کے ساتھ آپی جی کی دعائوں کا نتیجہ تھا کہ شریف خاندان اقتدار کی معراج کو چھُو گیا ۔ میاںمحمد شریف صاحب ؒکے پردہ فرمانے کے بعد شریف خاندان میں تین لوگ اہم تھے ان میں میاں عباس شریف صاحب، بڑی باجی کلثوم نواز شریف صاحبہ اور سب سے بڑھ کر آپی جی چلتی پھرتی سرکار آقاکریم ﷺ کی محبت میں سرشار رہنے والی ہر وقت درود و سلام پڑھ کر سب کیلئے اپنی سادہ محبت بھری پنجابی زبان میں دعائیں کرنے والی ایک ایسی سرکارِ مصطفی ﷺ کی غلام جو ہر وقت حضرت سیّدہ بی بی آمنہ سلام اللہ علیہا اور خاص طور پر بی بی فاطمۃ الزہرہ سلام اللہ علیہا پر سلام پڑھتی رہتی تھیں ۔ شفیق اتنی کہ نوکروں کے بچوں سے بھی شہزادوں کی طرح محبت فرماتی تھیں ۔ بے شک زیادہ وقت نواز شریف صاحب کی فیملی کے ساتھ گزارتی تھیں مگر دعائوں کے انبار میں جناب شہباز شریف اور ان کے خاندان کا پورا حصہ رکھتی تھیں۔ انھیں کبھی پرواہ نہیں تھی کہ وہ ایک بڑے آدمی کی شریکِ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی والدہ ماجدہ بھی تھیں ۔ رشتوں کے تقدس کو کبھی پامال کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں بلکہ ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھتی تھیں کہ رشتے ایک دوسرے کا خیال رکھنے کیلئے ہوتے ہیں استعمال کیلئے نہیں ۔ آپی جی صاحبہ جانتی تھیں کہ یہ ایک غیبی اصو ل ہے کہ جو چیز تقسیم کرو گے اس چیز کی تمھارے پاس فراوانی ہو جائے گی پھروہ دولت ہو، عزت ہو، علم ہو انسانیت سے پیار و محبت ہو، درگزر ہو کھانا ہو یا آسانیاں ۔ اسی لیے ان کا زیادہ وقت صدقہ خیرات دیتے اللہ کی یاد میں گزرتا تھا۔ آپی جی صاحبہ جانتی تھیں کہ لہجے کا زخم الفاظ سے زیادہ ہوتا ہے اس لیے کبھی سختی کا تصور بھی نہیں تھا ۔ بڑے میاں صاحب جانتے تھے کہ شخص نہیں بلکہ شخصیت بن کر رہو کیونکہ شخص خاک میں مل جاتا ہے اور شخصیت زندہ رہتی ہے ۔ ایک دن میں نے میاں صاحبؒ سے پوچھا کہ کیسے پتہ لگے کہ کون اپنا ہے کون اپنا نہیں ۔ مجھے مسکرا کر کہنے لگے بیٹا جب وقت اپنا ہے تو سب اپنے ہیں ورنہ کوئی نہیں ۔ میاں صاحب ایک محنتی اور جفا کش انسان تھے وہ کہتے تھے کہ سورج کبھی مجھ سے پہلے نہیں نکلا میں ہمیشہ سورج سے پہلے جاگتا ہوں ۔ میں نے ایک دن وزیر اعظم نوازشریف صاحب کو کہا کہ آپ کا وزیر اعظم ہونا اور شہباز شریف کے وزیر اعلیٰ ہونے میں آپ کا کوئی کمال نہیں ہے یہ سب کریڈٹ بڑے میاں صاحب کو جاتا ہے ۔ تو انھوں میں میری بات سے اتفاق کیا ۔زندگی میں ناکامی کا منہ انسان اس وقت دیکھتا ہے جب کامیابی کے حصول کیلئے اللہ کے اصول توڑ دیتا ہے اور پھر طوفان میں کشتیاں اور گھمنڈ میں ہستیاں اکثر ڈوب جاتی ہیں انسان غلطی کا پتلا ہے اور پروردگار معاف کرنے والے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ قومیں غلطیاں کرنے سے نہیں غلطیوں پر اصرار کرنے سے برباد ہوئی ہیں ۔ ماں ایک احساس کا نام ہے بلکہ ماں رب کا روپ ہے ۔ آقا کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ اگر میری ماں زندہ ہوتیں میں فرض نماز میں ہوتا اور میری ماں مجھے بلاتیں "محمد " تو میں فرض نما ز چھوڑ کر ان کے سامنے جا حاضر ہوتا۔ موسیٰ علیہ السّلام کوہِ طور پر جا رہے تھے آواز آئی اے موسیٰ آج سنبھل کر آنا آج تیرے پیچھے دعا کرنے والی تیری ماں نہیں رہی ۔"ماں"دربارِ مصطفی ﷺ میں پیش ہو کر اولاد کیلئے معافی کا دروازہ کھلوا دیتی ہے۔ مائیں سب کی عظیم ہوتی ہیں چاہے بادشاہوں کی ہوں یا فقیروں کی ۔ جب مائوں کے ہاتھ اُٹھتے ہیں تو جیسے ہوائیں موسموں کا رُخ بدلتی ہیں ماں کی دعائیں مصیبتوں کا رُخ بدل دیتی ہیں ۔
زندگی کا بیشتر حصہ گزارنے کے بعد احساس ہوا کہ ساری عمر حصولِ دنیا کیلئے گزار دی ہے موت کا کچھ پتہ نہیں کس وقت زندگی کی شام ہو جائے ۔ اللہ کے حضور کیا منہ لے کر جائیں گے ۔موت کا وقت قریب ہے زادِ راہ نہیں ہے ایک دن سب نے جانا ہے کوئی روک نہیں سکتا ۔ عزت اقتدار میں نہیں اللہ کریم اور حبیب خدا ﷺ کی خوشنودی میں ہے ۔ ہمارے بہت سے بڑے لیڈر زندگی کی بہاریں لُوٹ چکے ہیں ۔ کبھی قبرستان جا کر دیکھیں وہاں بہت سے وہ لوگ دفن ہیں جو کہتے تھے کہ کائنات کا نظام ہمارے بغیر نہیں چل سکتا ۔ یا د رکھو! یہ دنیا کسی کی نہ ہوئی ہے نہ ہوگی اس کی حیثیت بالکل ایسے ہے جیسے ہاتھ پر ریت رکھ کر اُڑا دی جائے ۔جتنا دنیا کیلئے تڑپتے ہو آخرت کیلئے بھی سرو سامان اکٹھا کرو ۔ "جھلّیو سرکار ﷺ دے نال محبت ودھا لوو چنگے رہ جائو گے "کیا قبر میں یہ کہنے سے جان چھوٹ جائے گی کہ میں وزیر تھا یا میں وزیر اعظم تھا ؟ یہ سب شان و شوکت دنیا کی آن، دولت یہیں پر مٹی ہوگی اس لیے جہنم میں جائے یہ دنیا کی مال و دولت اور اقتدار باقی وقت اپنے مالک کو راضی کرنے میں لگائو کیونکہ عزت اقتدار میں نہیں ۔اللہ سے ضرورت مانگو کہ ضرورت فقیر کی بھی پوری ہوتی ہے ۔ خواہش نہ کرو کہ خواہشات لامحدود ہوتی ہیں کبھی بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتیں ۔یاد رکھو ! محدود ہو محدود رہو اور لا محدود کو راضی کر لو اس سے پہلے کہ عزرائیل ؑ تشریف لے آئیں کیوںکہ زندگی کی حقیقت اتنی سی ہے کہ اگر اگلا سانس آگیاتو یہ جہاں ورنہ وہ جہاں۔ میں نے بادشاہوں کو دنیا سے خالی ہاتھ جاتے دیکھا ہے ایک دن ہم نے ضرور جانا ہے جن کے والدین زندہ ہیں ان کی قدر کریں ان کی قیمت پوچھنی ہے تو نوازشریف سے پوچھیں جو ماں کے ہاتھ چوم کر قدموں کا بوسہ لیتے تھے اپنے والد کو کبھی پیٹھ نہیں کرتے تھے ۔ آج شاید وہ ایک بوسے کے بدلے پوری کائنات بھی دے دیں مگر اب نہیں جانیوالے چلے گئے ہیں ۔ اب انھیں اپنے مشیروں سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ اور ایک دفعہ Reviewکرنا ہوگا کہ زندگی میں غلطی کا پتلا ہونے کے ناطے کون کونسی غلطیاں ہوئی ہیں اور ان کا ازالہ کیسے ممکن ہے ۔ اسلئے کہ اب پیچھے دعا کرنے والے ہاتھ نہیں رہے ۔ اگر اللہ کریم موسیٰ علیہ السّلام کو وارننگ دے سکتے ہیں توآپ کی اور میری کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ اللہ کریم آپی جی صاحبہؒ کے درجات بلند فرمائیں اور آقا کریم ﷺ کا قرب نصیب فرمائیں آمین۔ اور مجھے بس یہ کہنے کی اجازت دیں :
جن سے افسانہء ہستی میں تسلسل تھا کبھی
ان محبت کی روایات نے دم توڑ دیا
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38