حضرت محمد ﷺ کا صبر و استقلال

حضرت محمد ﷺ کو چالیس برس کی عمر میں رسالت کے عظیم ترین منصب پر فائز کیا گیا ۔فرشتے کے ذریعے وحی نازل ہوئی کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول مقر ر کردیا ہے۔آپؐ نے دینِ اسلام کی بنیاد رکھی اور لوگوں میں اس کی تبلیغ کرنے کا جرأت مندانہ آغاز کیا۔جس وقت آپؐ کو منصبِ رسالت سے نوازا گیا اُس وقت لوگ ایک اللہ کے تصور سے بالکل ناآشنا تھے۔لوگ بُت پرستی ، توہم پرستی اور غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔لڑائی جھگڑا اُن کا روز مرہ کا معمول تھا۔ایسے مشکل ترین دور میں لوگوں کو راہِ راست پر لانااور ایک اللہ کا تصور دینابے حد مشکل تھا ۔حضرت محمدؐ ہمارے آخری پیغمبر ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے سب جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا اور اُن کو رحمت اللعالمین ہونے کا اعزاز بخشا۔آپؐ بے شک سب جہانوں کے لیے باعثِ رحمت ہیں۔نبوت ملنے سے پہلے ہی حضرت محمدؐ کی عظمت و ناموس کے لوگ قائل ہو چکے تھے۔جہالت کے دور میں بھی آپ ؐ کو امین کا خطاب مل چکا تھا۔آپؐ کی دور اندیشی ، عقل مندی اور فہم و فراست کے دُور دُورتک ڈنکے بج چکے تھے۔آپؐ کے کردار کے حوالے سے لوگ پختہ یقین رکھتے تھے۔آپؐ جوانی میں ہی شرافت اور بردباری کے پیکر بن چکے تھے۔چونکہ حضرت محمدؐ کی شرافت و امانت داری کا ایک زمانہ قائل تھا اس لیے جب انہوں نے دینِ اسلام کی تبلیغ کا آغاز کیا تو کچھ لوگوں نے آپؐ کی تائید کی اوردینِ اسلام کو دینِ حق مان لیا اور اسلام قبول کر لیا مگر اکثریت نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا ۔یہی وہ دور تھا جب حضرت محمدؐ کے صبر و استقلال کی آزمائش کا آغاز ہوا۔ آپؐ کے خلاف آپؐ کے اپنے اور قریبی لوگوں نے سازشیں شروع کر دیں۔آپؐ پر ظلم کرنے سے گریز نہ کیا گیا۔وقت گزرتا گیا مگرحضرت محمدؐ کے صبر اور حکمت نے کمال دکھایا اور بے شمار لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے۔کفار جو کہ آپ ؐ کی شرافت و دیانت کے قائل تھے وہ پہلے پہل تو آپؐ کی مخالفت کرتے رہے لیکن آہستہ آہستہ ان میں سے اکثریت نے اسلام قبول کر لیا۔حضرت محمدؐ نے ہجرت بھی کی ، غزوات میں بطور عظیم سپہ سالار اپنی حکمتِ عملی کی بدولت فاتح بھی قرار پائے۔بطور فاتح بھی آپؐ نے اپنی عمدہ حکمت کا مظاہرہ کیا اور کسی پر ظلم نہ خود کیا اور نہ اپنے ساتھیوں کو ظلم کی اجازت دی۔ جنگی قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک روا رکھا جس سے بے شمار لوگوں نے فوری طور پر اسلام قبول کر لیا۔آپ بطور سپہ سالار اورفاتح نہایت بااخلاق اور پر شفقت رہے۔حضرت محمدؐ زندگی کے ہر شعبے میں عمدہ حکمتِ عملی کے حامل دکھائی دئیے۔بطور شوہر اپنی ازدواجی زندگی بہترین طریقے سے بسر کی۔بطور باپ نہایت شفیق و مہربان تھے۔بطور منصف نہایت فہم و فراست اور صبر و تحمل کے پیکر نظر آئے۔بطور امین آپؐ کی ایمانداری کی شہادت اُس وقت کے کفار بھی دیتے تھے۔طہارت و پاکیزگی میں آپؐ ایک لاثانی کردار کے حامل تھے۔آپ ؐ کی شرافت و دیانتداری کا ہی نتیجہ تھا کہ بہت جلد لوگوں نے جہالت کے بدترین دور کے باوجودآپؐ کو اپنا رسول مان لیا۔حضرت محمدؐ کی عظمت دیکھیے کہ آپؐ کے ذریعے نہ صرف اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کا نزول کیا بلکہ معراج کا عظیم ترین شرف بھی آپؐ کو بخشا۔قرآن پاک کی آیات سن کر اکثر کافر مسلمان ہوئے۔قرآن پاک اس زمانے میں تورات ، زبور اور انجیل کے بعد چوتھا صحیفہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے باقی تمام صحیفوں سے افضل قرار دیا ۔اور اس پر عمل کرنے کی تلقین کی۔ حضرت محمدؐ کی طرح قرآن ِ پاک کوبھی آخری کتاب کا اعزاز بخشا۔شبِ معراج دُنیا کا سب سے معتبر اور مدلل واقعہ ہے جس میں پانچ نمازیں مسلمانوں پر فرض ہوئیں۔ نمازوں کی ادائیگی میں انسانی جسم کی توانائی اور اس کی صحت ہے۔ قرآنِ پاک، نمازیں ، روزے ، حج ، زکوٰۃ ہم تک حضرت محمدؐ کے توسط ہی سے متعارف ہوئے۔جن پر عمل کر نا ہم سب پر واجب ہے۔حضرت محمدؐ کا آخری خطبہ بھی کسی تحفے سے کم نہیں ہے جس میں آپؐ نے کسی عربی کو عجمی پر فوقیت دینے سے منع فرمایا ایک دوسرے کی جان و مال کی حفاظت کا اہم ترین فریضہ ہم سب کو سونپا۔غرض یہ کہ حضرت محمدؐ کا آخری خطبہ منشورِ کائنات ہے جس میں کائنات میں بسنے والے تمام انسانوں کو ایک درس دیا گیا جس پر عمل کر کے ہم سب امن و آشتی اور بھائی چارے کی زندگی گزار کر اس دُنیا کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔