سپریم کورٹ میں مردم شماری میں تاخیر کے حوالے سے ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جمہوری نظام کا دارو مدار مردم شماری پر ہے۔ ہمارے پاس وزیراعظم کو طلب کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ چاہتے ہیں کہ وزیراعظم کونوٹس جاری کریں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا آپ نے مردم شماری نہیں کرانی تو وزیر اعظم خودعدالت آجائیں۔ چیف جسٹس انور ظہر جمالی نے کہا کہ حکومت کی نیت ہی ٹھیک نہیں۔ مردم شماری نہ کرواکر پورے ملک سے مذاق کیا جا رہا ہے۔ تحریری طور پر عدالت کو بتائیں پندرہ مارچ کو مردم شماری شروع ہوکر پندرہ مئی تک ختم ہوجائے گی۔ مردم شماری ہوگی تو نئی حلقہ بندیاں ہوں گی۔ پانچ ماہ سے یہ کیس سن رہے ہیں۔ رواں سال یہ سماعت مکمل ہوجانی چاہیے تھی۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ انیس سو اٹھانوے اور موجودہ آبادی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ تمام تیاری مکمل اور آرمی بھی دستیاب ہے۔ وزیراعظم کو بلا کر یہ وضاحت طلب کر لیتے ہیں کی صوبے تعاون نہیں کررہے۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ اگرالیکشن ہوسکتے ہیں تو مردم شماری کیوں نہیں ہوسکتی۔ فوج کے بغیر مردم شماری نہیں ہوسکتی تو آئین تبدیل کردیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں چل رہی ہیں۔ کل الیکشن کمیشن بھی کہے گا کہ فوج کے بغیر الیکشن نہیں ہو سکتے۔ اس طرح تو اپریل میں بھی مردم شماری شروع نہیں ہوسکے گی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ہر صوبے میں الگ الگ مردم شماری ہوگی جس کیلئے تین ماہ لگیں گے۔ مشترکہ مفادات کونسل میں صوبے بھی شامل ہیں۔ تاخیر سے آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ عدالت عظمیٰ نے مردم شماری کے حوالے سے حکومت کو آخری مہلت دیتے ہوئے سماعت سات دسمبر تک ملتوی کردی۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024