آف شور کمپنیوں کی 2006 ء سے قبل ملکیت ثابت کردیںسارا بوجھ شریف فیملی پر ہو گا
اسلام آباد( نمائندہ نوائے وقت + نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ میں پانامہ پیپرز کیس کی سماعت میں پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل جاری تھے کہ کیس کی مزید سماعت منگل 6دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید خان کھوسہ، جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس شیخ عظمت سعیداور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 5رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی، درخواست گزار طارق اسد ایڈووکیٹ نے اپنی ایک نئی متفرق درخواست کے حوالہ سے کہا کہ اس کیس کی پچھلی سماعت کے بعد قومی میڈیا میں عمران کے سابق وکیل حامد خان سے متعلق بہت منفی باتیں کی گئی تھیں اس قسم کے تبصروں سے کیس پر اثر پڑے گا۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمہ کی کوریج کے دوران میڈیا احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ عمران کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم نواز شریف نے پانامہ پیپرز کے حوالہ سے اپنے خطابات میں قوم کے سامنے سچ نہیں بولا، وہ ٹیکس چوری کے مرتکب ہوئے، انہوں نے یہ نہیں بتایا ہے کہ دوبئی فیکٹری کب بنائی گئی تھی؟ ہم ریکارڈ سے ثابت کریںگے کہ وہ فیکٹری بے نامی تھی، جسٹس شیخ عظمت سعید نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ اخبار میں جو چھپتا ہے وہ مان لیں؟ تو آپ کے موکل کے بارے میں انگریزی اخباروں میں پچھلے 30 سال سے جو چھپتا آرہا ہے کیا اس کو بھی سچ مان لیں؟ اصل بات یہ ہے کہ عدالت سے دستاویزات چھپائی گئی ہیں، انہوں نے وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل محمد اکرم شیخ کو کہا کہ آپ بتائیں کہ دستاویزات کیوں چھپائی گئی ہیں؟ آپ کہتے ہیں کہ شیئر ہولڈر ہیں، آپ کو اس بات کا ثبوت دینا ہوگا، نعیم بخاری نے کہا کہ 14 اپریل 1980 کو دبئی سٹیل مل کا معاہدہ ہوا، معاہدے میں طارق شفیع کی نمائندگی ان کے کزن شہباز شریف نے کی، طارق شفیع نے اپنے 25 فیصد شیئرز آہلی سٹیل ملز کو 12 ملین درہم میں فروخت کئے، وزیراعظم 33 ملین ڈالر فروخت کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں؟ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کے فلور پر جھوٹ بول۔ رقوم کی منتقلی اور منی ٹریل کا ریکارڈ دستیاب نہیں۔ وزیراعظم کے پاس دبئی، سعودی عرب اور لندن فلیٹس کی کوئی منی ٹریل نہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید شیخ نے کہا کہ یہ بات آپ کے ذہن میں ہونی چاہیے کہ جو دستاویزات آپ دکھا رہے ہیں وہ متعلقہ حکام سے تصدیق شدہ نہیں، فاضل وکیل نے کہا کہ یہ دستاویزات انٹرنیٹ سے ڈائون لوڈ کی گئی ہیں، جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ پھر تو آپ قطری شہزادہ حمد بن جاسم کی تاریخ پیدائش بھی انٹرنیٹ سے ڈاون لوڈ کر لیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے سب کچھ میاں محمد شریف نے کیا ہے، ان کے بچوں اور آگے سے بچوں کے بچوں نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ سب دستاویزات میاں محمد شریف کے بارے میں ہی ہیں، ہمیں نواز شریف اور ان کے بچوں کے بارے میں بتائیں؟ آپ کو شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں سے 2006 سے پہلے کا تعلق ثابت کرنا ہوگا، اگر یہ ثابت ہو گیا تو سارا بوجھ شریف خاندان پر ہو گا، نعیم بخاری نے کہا کہ دبئی فیکٹری کی فروخت کے وقت وزیر اعلی شہباز شریف بطور نمائندہ پیش ہوئے تھے جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کاغذات پر دستخط کس کے تھے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم کے اسمبلی کے فلور پر بیان اور عدالتی بیان میں تضاد ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر وزیر اعظم نے جدہ سٹیل ملز کا سرمایہ لندن فلیٹس کی خریداری کے لیے استعمال نہیں کیا تو جدہ سٹیل ملز لگانے کے لیے پیسہ کہاں سے آیا تھا؟ نعیم بخاری نے کہا کہ شہباز شریف نے طارق شفیع بن کر دستاویزات پر دستخط کیے۔ نواز شریف نے عدالت عظمیٰ میں بھی سچ نہیں بولا۔ گلف سٹیل مل کے لئے قرض 26 ملین درھم تھا۔ جب کہ سٹیل مل 21 ملین درھم میں فروخت ہوئی، مل کی فروخت سے طارق شفیع کو ایک روپیہ تک نہیں ملا۔ رقم کیسے دبئی اور سعودی عرب منتقل ہوئی یہ نہیں بتایا گیا۔ سعودی عرب، قطر اور دبئی میں کاروبار کے لئے رقم موجود نہیں تھی۔ تحریک انصاف کے وکیل نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ شریف خاندان کی لندن میں ایک اور پراپرٹی ہے، فلیگ سپ لمیٹڈ حسن نواز کی ملکیت ہے کمپنی نے فلیٹ تین سو ہزار پاونڈ میں خریدا۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ یہ آپ نے پہلے نہیں بتایا تھا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ یہ دستاویز ہمیں بعد میں ملی۔ حال ہی میں ایک ھائیڈ پارک بھی خریدا گیا لیکن اس تفصیلات میں نہیں جاتا، جدہ سٹیل مل ابھی فروخت نہیں ہوئی تھی تو اس سے پہلے یہ فلیٹس بنائے گئے تھے۔ لندن فلیٹس کی بھی مریم نواز بینیفشل مالک ہیں، فاضل وکیل نے کہا کہ مسول علیہان کی جانب سے عدالت میں پیش کئے گئے قطری شہزادے حمد بن جاسم کے خط نے وزیر اعظم کے پہلے تمام بیانات کی تردید کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ پیپرز لیکس کے حوالہ سے چیئرمین نیب بھی اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں، اور انہوں نے اس معاملہ میں وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو تحفظ فراہم کیا ہے، جس پر ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی جا نی چاہئے۔ مریم نواز اور حسین نواز کے درمیان ٹرسٹ ڈیڈ سے بھی کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ دبئی حکومت نے زمین لیز پر دی، یہ سٹیل ملزکب قائم ہوئی کچھ پتہ نہیں ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دستاویز کے مطابق ملز کے لیے مشینری کو ٹیکس سے استثنیٰ بھی دیا گیا تھا۔ شریف خاندان کی دستاویزات کے مطابق ملز کے لیے بی سی سی آئی بینک سے قرضہ لیا گیا تھا، کہتے ہیں 1978میں 75فیصد شیئرز فروخت کرکے قرض اتارا گیا تھا، مل فروخت کرکے 21ملین درہم قرض ادا کیا گیا، بی سی سی آئی بینک کے قرضے کی رقم 27.5ملین درہم تھی، مل کی فروخت کے بعد بینک کے چھ ملین درہم کا قرض واجب الادا تھا۔ رقم جدہ سے لندن کیسے گئی، بتایا جائے، آپ کو گلہ تھا حصہ صرف حسن نواز کو ملا اب پتہ چلا حسین نواز کو بھی دیا گیا۔ وزیر اعظم کے بچوں کی تاریخ پیدائش بتائیں، جاننا چاہتے ہیں کہ کس عمر میں بچوں نے اتنا پیسہ کمایا، قطری خط میں کیا لکھا ہے کہ خط بھیجنے والا شہزادہ ہے۔ آپ نے کیسے مان لیا کہ ہر امیر آدمی شہزادہ ہوتا ہے، آپ کو شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں سے تعلق 2006 سے پہلے کا ثابت کرنا ہوگا اگر یہ ثابت ہوجائے تو سارا بوجھ شریف خاندان پر ہوگا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ قطر کی سرمایہ کاری سے لندن فلیٹس خریدے گئے لیکن جدہ سٹیل ملزکے فنڈز کی وضاخت نہیں۔ وزیر اعظم نے بیان میں کہا کہ جدہ سٹیل ملز کے لیے سرمایہ دبئی ملز سے لیا گیا تھا، نعیم بخاری نے کہا کہ وزیر اعظم نے جدہ کی فیکٹری کے لیے سعودی عرب کے بینک سے بھی قرضہ لینے کاذکر کیا تھا۔ سعودی سٹیل ملز کے متعلق ایک دستاویز بھی پیش نہیں کی گئی ہے۔ نعیم بخاری نے قطر سے آنے والے خط پر دلائل دینے اور اسے پڑھنے کی اجازت طلب کی تو عدالت نے کہا کہ اگر یہ تصدیق شدہ نہیں تو اسے کیوں دیکھیں،نعیم بخاری نے وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز اور صاحبزادے حسن نواز کے ٹیلی ویڑن انٹریوز اور گارڈین اخبار میں چھپنے والی ایک خبر کا حوالہ دیا جس کے مطابق انہوں نے کہا کہ مریم نے کہا کہ وہ والد کے ساتھ رہتی ہیں، اندرون بیرون ملک ان کی کوئی جائیداد نہیں، جسٹس عظمت نے اکرم شیخ سے استفسار کیا کہ کیا معاہدے اور بیان حلفی پر طارق شفیع کے دستخط میں یکسانیت نہیں جس پر انہوں نے کہا میں ان کا نہیں وزیراعظم کے بچوںکا وکیل ہوں تو جسٹس شیخ عظمت سعید نے انہیںکہا کہ اخباری تراشوں کو لاکر سونے میں کھوٹ کیوں ڈال رہے ہیں؟ کچی دیواروں پر پیر نہ جمائیں، عدالت ضروری ہوتا ہے تو وہ مختلف کیسوں میں اخبارات کی خبروں کا حوالہ قبول کرتی ہے لیکن یہ پیچیدہ معاملہ ہے۔ اس معاملے میں ذرائع ابلاغ کا حوالہ کافی نہیں ہے، جسٹس آصف سعید نے کہا کہ اخباری خبروں پر اسمبلیاں بھی تحلیل ہوئی ہیں، عدالت نے نعیم بخاری کو کہا کہ وہ منگل کے روز اپنے دلائل مکمل کریں بعد ازاں کیس کی مزید سماعت تک ملتوی کر دی گئی۔ آئی این پی کے مطابق سپریم کورٹ نے نعیم بخاری کو آئندہ سماعت پر دلائل 35منٹ میں ختم کرنے کی ہدایت کی۔ ججز کا کہنا تھا کہ عدالت میں کہا گیا کہ دبئی والا پیسہ قطر میں لگایا گیا سوال یہ ہے کہ جدہ فیکٹری کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا، سعودی بینکوں سے قرضہ کیسے لیا گیا؟‘ قطری شہزادے نے خط میں بڑے بھائی کا ذکر کیا نام نہیں بتایا، قطر سے پیسہ لندن کیسے گیا یہ بھی نہیں بتایا گیا، قطری شہزادے کا خط تصدیق شدہ نہیں، دستاویزات سے لگتا ہے کہ طارق شفیع میاں شریف کیلئے کام کرتے تھے۔ مریم شادی شدہ ہے تو وہ والد کے ساتھ کیسے رہتی ہے؟، کیا ان کے شوہر بھی اپنے ساس سسر کے پاس رہتے ہیں؟ جسٹس عظمت نے کہا قطری شہزادے نے انگلینڈ میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کا ذکر بھی نہیں کیا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ دبئی سے پیسہ کب، کیسے اور کس بینک اکاؤنٹ کے ذریعے منتقل ہوا اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ فلیٹس کتنے میں خریدے گئے۔ عدالت نے کہا قطری شہزادے کا خط تصدیق شدہ نہیں، کیا اس خط کی قانونی حیثیت ہے، نعیم بخاری نے جواب دیا کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل گیا۔ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ اخباری خبروں پر فیصلہ سنایا تو آپ کے موکل کے لئے بھی پریشانی ہو سکتی ہے۔ مریم اور حسن نواز کی نئی ٹرسٹ ڈیڈ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی گئی۔ دی نیشن کے مطابق عدالت نے عمران کے وکیل سے کہا کہ 2006ء سے قبل فلیٹوں کی شریف فیملی کی ملکیت اور آف شور کمپنیوں سے تعلق ثابت کر دیں تو سارا بوجھ شریف خاندان پر ہو گا۔