عدالت عدلیہ ڈیڑھ عدالتوں میں 13 لاکھ مازیرالتوا٬روایتی انداز سے نمٹا نا ممکن نہیں
لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ قانون کی بالادستی اور آزاد عدلیہ کے قیام کیلئے سینئر اور بزرگ وکلاء کا کردار کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا، سینئر وکلاء کے بغیر لاہور ہائیکورٹ کی 150 سالہ تقریبات منانا ناممکن ہے۔ سائلین کو جلد اور معیاری انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے عدالت عالیہ لاہور میں اہم اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ بزرگ اور سینئر وکلاء کے اعزاز میں تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ان کی خوشی ناقابل بیان ہے کہ آج انکے استاد وکلاء اس تقریب میں موجود ہیں‘ عام آدمی کو فوری اور معیاری انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے عدالت عالیہ لاہور میں انقلابی اقدامات کئے گئے ہیں‘ عام آدمی ہم سے صرف یہ امید کرتا ہے کہ اس کو مقدمے کی شیلف لائف کم ہوجائے اور اس کے مقدمے کو جلد از جلد قانون کے مطابق نمٹا دیا جائے۔ عدالت عالیہ میں پانچ لاکھ ضلعی عدلیہ میں تیرہ لاکھ مقدمات زیر التواء ہیںجن کو روائتی انداز میں نمٹانا ناممکن ہے، اس لئے ورلڈ بنک کے تعاون سے دس کروڑ روپے لاگت سے لاہور میں پاکستان کا پہلا اے ڈی آر سنٹر قائم کیا جارہا ہے۔ چیف جسٹس نے مزید بتایا کہ صرف تین ماہ کے کم عرصہ میں لاہور ہائیکورٹ کی تاریخ پر مشتمل کتاب ڈیزائن کی گئی ہے ۔ سینئر ایڈووکیٹ افضل حیدر نے کہا ان کیلئے اعزاز کی بات ہے کہ وہ عدالت عالیہ کی سو سالہ تقریبات کا بھی حصہ تھے۔ ایس ایم ظفر نے کہا کہ وہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو عدالت عالیہ کی ڈیڑھ سو سالہ تقریبات منانے کی مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی مبارکباد دیتے ہیں کہ چیف جسٹس کرپشن کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں طلبہ یس خطاب میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ہم ججز کا کام انصاف کرنا ہے‘ حق دار کو قانون کے مطابق اس کا حق دلانا ہے‘ انصاف طرز زندگی کا نام ہے جو صرف عدالتوں میں ہی نہیں کیا جاتا بلکہ ہمیں اپنی روز مرہ زندگی اور رشتوں میں بھی انصاف اور شفافیت کو اپنانا ہوگا۔
فاضل چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ میوزیم کا دورہ کرنے والے طلبہ طالبات سے گزشتہ روز خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر سینئر ترین جج مسٹر جسٹس شاہد حمید ڈار، مسٹر جسٹس محمد یاور علی، مسٹر جسٹس انوار الحق، مسٹر جسٹس سردار محمد شمیم احمد خان، مسٹر جسٹس مامون الرشید شیخ اور مسٹر جسٹس محمد قاسم خان سمیت دیگر فاضل جج صاحبان، رجسٹرار سید خورشید انور رضوی اور ممبر انسپکشن ٹیم بھی موجود تھے۔ انہوں نے بچوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ کورٹ رومز کے دورے کے دوران آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگوں کو انصاف کیسے ملتا ہے۔ عدالتی نظام کیسے چلتا ہے، وکلاء کے دلائل اور ججز کے فیصلے دیکھے ہیں، فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کی ایک سو پچاس سالہ تقریبات منانے کا مقصد عام آدمی کو احساس دلانا ہے کہ ایک متحرک عدلیہ صوبے کی عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے کوشاں ہے‘ لوگوں کے ذہنوں سے عدلیہ کے منفی تاثر کو ختم کرنے کیلئے سول سوسائٹی اور طلبہ و طالبات کو ان تقریبات کا حصہ بنایا گیا ہے‘ ہمیں اپنے اندر انصاف پیدا کرنا ہوگا اور اگر ہم انصاف کو اپنی روز مرہ زندگی کا حصہ بنا لیں تو ہم بلند انسان بن جائیں گے، بچوں کو نظام انصاف کو سمجھنا ہوگا کیونکہ کل انہیں ہی انصاف کے ان ایوانوں کو سنبھالنا ہے۔ ہمارا آئین اور قانون عام بچوں اور خصوصی بچوں میں کسی قسم کوئی فرق نہیں کرتا، چیف جسٹس نے بچوں سے وعدہ لیا کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے اور انصاف پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہمارا مددگار نہیں ہے۔ تقریب سے سینئر ترین جج جسٹس شاہد حمید ڈار نے بھی خطاب کیا۔ جسٹس انوار الحق ‘ جسٹس محمد یاور علی اور جسٹس عائشہ اے ملک نے بھی خطاب کیا۔