9 نومبر کو الیکٹرانک میڈیا پر پاک فوج کی کمان کی تبدیلی کے مناظر دکھائے گئے۔ چشمِ فلک نے دیکھا اور مجھے کئی دوستوں اور عزیزوں نے مبارک باد دی اور خوشی کا اظہار کِیا کہ’’پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوج کی کمان کی تبدیلی کے خوشگوار مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں‘‘۔ ’’مصّورِ پاکستان‘‘ علاّمہ اقبالؒ نے دعا کی تھی…؎
’’یا ربّ دِل مُسلم کو ، وہ زندہ تمنّا دے!
جو قلب کو گرما دے اور رُوح کو تڑپا دے!‘‘
اللہ تعالیٰ کی طرف سے قلب کو گرمانے اور رُوح کو تڑپانے کی زندہ تمنّا عنایت کئے جانے کے اسباب پیدا ہوگئے ہیں۔ با عِزّت ریٹائر ہونے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور اُن کے جانشِین جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے اپنے خطاب میں جس انداز میں پاکستان کے اندرونی دشمنوں ، دہشت گردوں اور ہر قبِیل کے جرائم پیشہ عناصر اور بیرونی دشمن بھارت کو للکار اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے عالمی برادری کو اُس کی ذمہ داری کا احساس دِلایا، اُس سے ظاہر ہُوا کہ ’’پاک فوج کی کمان کی تبدیلی سے ہماری عسکری قیادت اور اُس کے زیر کمان شہادت کے مطلوب غازیوں کی فوج پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے سینۂ سپر ہے اور …؎
’’ جذبۂ بے اختیارِ شوق ، دیکھا چاہیے
سِینۂ شمشِیر سے باہر ہے ، دَم شمشِیر کا‘‘
علاّمہ اقبالؒ نے اپنی رُوحانیت سے اندازہ لگایا کہ 711ء میں اُندلس کے فاتح طارق ؔبن زیاد نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہُوئے اپنے زیر کمان غازیوں کے بارے میں کہا ہوگا کہ …
’’ یہ غازی ، یہ تیرے پُر اسرار بندے
جنہیں تُو نے بخشا ہے ، ذوقِ خُدائی
… O …
شہادت ہے مطلُوب و مقصُودِ مومن
نہ مالِ غنِیمت ، نہ کِشور کُشائی‘‘
حدیثِ رسولِ مقبولؐ ہے کہ ’’ تخلَّقُو! با اخلاق اللہ !‘‘ اِس حدیث میں نبی کریمؐ نے مسلمانوں کو ہدایت کی تھی کہ ’’ اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات پیدا کرو!۔ ’’ ذوقِ خُدائی‘‘ کا مفہوم یہ ہے جِس کا مظاہرہ جنرل راحیل شریف نے بحیثیت آرمی چیف اور اُن کے زیرِ کمان افسروں اور جوانوںنے پاکستان کے بیرونی دشمنوں کو للکارتے اور اندرونی دشمنوں ، دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز اور دوسرے جرائم پیشہ گروہوں کا قلع قمع کرتے ہُوئے کِیا ۔ اُن کا مقصد مالِ غنیمت اور ’’کشور کُشائی‘‘ ( سلطنت اور حکومت حاصل کرنا ) نہیں تھا۔ پاکستان کے جِس بھی آرمی چیف نے پاکستان کی سلطنت اور حکومت پر قبضہ کِیا اور جو حکمران جمہوری لبادہ اوڑھ کر اقتدار کے ’’رنگ محل ‘‘میں داخل ہُوئے ، اُن کے دَور میں قومی دولت کو ’’ مالِ غنیمت‘‘ لوٹنے کی کُھلی چھوٹ دی گئی ، اُن کی عِزّت کون کرتا ہے؟۔
’’ جنرل راحیل شریف!‘‘
جنرل راحیل شریف سے پہلے ہمارے کئی آرمی چِیف با عِزّت ریٹائر ہو کر گھر بیٹھ گئے اور بعض سماجی خدمات انجام دینے لگے۔اُن کا نام بھی تاریخ میں لِکھا جائے گا اور بس!۔ لیکن جنرل راحیل اپنے کردار میں بے مثال ہیں ۔ قائدِاعظمؒ کی وصیت کے مطابق اُن کی ساری جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا گیا تھا۔ اُس کے بعد کسی بھی حکمران (خاص طور پر مسلم لیگی حکمران) نے اپنی جائیداد کا دسواں حِصّہ بھی قوم کے نام نہیں کِیا۔ اِس طرح قائداعظمؒ کی مسلم لیگ کے کئی گروپ بن گئے اور ابھی تک بنے ہوئے ہیں۔ اقتدار میں آنے والی ہر مسلم لیگ نے اُن مولویوں سے بھی اتحاد کِیا جن کے بزرگوں نے علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے خلاف کُفر کے فتوے دئیے تھے۔ اب بھی یہی صورت حال ہے۔
جنرل راحیل شریف پاکستان کے پہلے آرمی چیف ہیں جنہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ سے دس ماہ اور دس دِن پہلے 18 دسمبر 2015ء کو ( حکومتِ پاکستان کی طرف سے قومی خدمات پر ملنے والے ) اپنے دو قیمتی پلاٹ جن کی مالیت اربوں روپے ہے، دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے فوجیوں کے ’’ شُہدا فنڈ‘‘ کے لئے وقف کردئیے‘‘ جنرل راحیل شریف پاکستان کے پہلے جنرل ہیں جنہیں 8 جنوری 2016ء کو امریکی ادارے "A.P.C.News" نے دُنیا کے دس بہترین جنرلز میں سے بہترین جنرل قرار دِیا ۔ اِس طرح پاکستان کا نام سر بلند ہوگیا۔
"Living Legend"
جنرل راحیل شریف پاکستان کے پہلے آرمی چیف ہیں جنہوں نے 25 جنوری 2016ء کو اعلان کردِیا تھا کہ ’’ مَیں اپنے عُہدے کی مُدّت ختم ہونے پر مقررہ وقت پر (29 نومبر 2016ئ) کو ریٹائر ہو جائوں گا اور ہوگئے‘‘ اُن کے اِس اعلان کے بعد مسلم لیگ (ن) کی دوسرے درجے سے لے کر دسویں درجے کی قیادت نے اُن کے عُہدے کی مُدّت میں بے جا توسیع پر تبصرہ کرنا ضروری سمجھا۔ جنرل راحیل شریف کی پوزیشن خراب کرنے کے لئے وفاقی وزیر عبد اُلقادر بلوچ نے کہا کہ ’’ہماری حکومت نے جنرل راحیل شریف کی سفارش پر سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو ملک سے باہر بھجوایا تھا‘‘ اورجنرل قمر جاوید باجوہ کے ’’ مبینہ اردو کے اُستاد ‘‘ جناب عرفان صدیقی نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں فرمایا کہ ’’اب نیشنل ایکشن پروگرام، ضرب اُلعضب اور کراچی میںکئے جانے والے آپریشن کو ’’ کنارے پر‘‘ بھی لگایا جاسکتا ہے‘‘۔
اپنی اوقات سے بڑھ کر بولنے والے نہیں جانتے کہ جب کوئی قومی ہیرو "Living Legend" کا درجہ حاصل کرلے تو اُس کے خلاف بد زبانی کرنا چاند پر تھوکنے کے برابر ہے ۔ فارسی زبان کے شاعر نے کسی امانت دار بادشاہ / حکمران کی طرف سے کہا تھا کہ …؎
’’درحقیقت، مالکِ ہر شے خُدا، است
اِیں امانت ، چند روزۂ نزد ما ، است‘‘
’’آرمی چیف کی چھڑی‘‘
یعنی ’’ہر چیز کا مالک خُدا ہے اور ( اقتدار) میرے لئے چند روز کے لئے امانت ہے ‘‘۔ قائدِاعظم کے سواہر حکمران نے اپنے اقتدار کو اور کئی آرمی چیفس نے اپنی "Command Stick" ( کمان کی چھڑی) کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ لِیا اور وہ قُدرت کے تیر و کمان کی زند میں آگئے ۔ مَیں نے ٹیلی ویژن پر جنرل راحیل شریف کو ’’ کمان کی چھڑی‘‘ جنرل قمر جاوید باجوہ کے سپرد کرنے کا منظر دیکھا تو مجھے 20 مئی 2014ء کا ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور میں منعقدہ تقریب کا منظر یاد آیا ۔ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے اپنی صدارتی خطبہ کا آغاز کِیا اور اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی کو لہراتے ہُوئے کہا کہ ’’ مَیں نے یہ چھڑی بھارت کو سیدھا کرنے کے لئے اُٹھائی ہے اور اگر نریندر مودی نے پاکستان کے لئے موذیؔ ( ظالم ، جابر اور شریر شخص) بننے کی کوشش کی تو اُسے اپنے ’’ موذی پن ‘‘ کا خمیازہ بھگتنا پڑے ہوگا۔ جناب مجید نظامی ’’ مجاہدِ مِلّت ‘‘ تھے اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان نے اُنہیں ’’مجاہد‘‘ کی سند کے ساتھ تلوار بھی عنایت کی تھی۔ پاکستان کے آرمی چیف کی حیثیت سے جنرل قمر جاوید باجوہ کو تو دَورِ حاضر کے ’’ مجاہد اعظم‘‘ کاکردار ادا کرنے کے لئے ’’ کمان کی چھڑی‘‘ دی گئی ہے ۔ اُنہیں علاّمہ اقبال ؒ کے اِس مصرعے پر بھی غور کرنا ہوگا کہ …؎
’’ مُلّا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور!‘‘
جنرل راحیل شریف کے پاس ’’ کمان کی چھڑی‘‘ ایک امانت تھی۔ اب یہ امانت جنرل قمر جاوید باجوہ کے ہاتھ میں ہے۔ مَیں تو آرمی چیف کی چھڑی کو بھارت کے پاکستان دشمن بھارتی وزیراعظم کے لئے ’’ تڑی‘‘ "Warning" سمجھتا ہُوں۔ خدا کرے کہ میرا خیال اور سوچ درُست ثابت ہو!۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024