خارزار صحافت میں مجھے لگ بھگ چالیس برس سے اوپر ہو گئے، اپنی صحافتی زندگی میں، مَیں نے جن نامور بھارتی شخصیات کے انٹرویوز کئے ان میں پران چوپڑہ، خشونت سنگھ اور ماسٹر تارا سنگھ کی پوتی بھی شامل ہیں۔ یہ وہی ماسٹر تارا سنگھ ہیں جنہوں نے عین قیام پاکستان کے وقت لاہور میں کرپان لہرا کر کہا تھا ہم متحدہ ہندوستان کو تقسیم نہیں ہونے دینگے اور پاکستان ہماری نعشوں پر ہی بنے گا۔ انہی ماسٹر تارا سنگھ کی پوتی سے برسوں پہلے مرحوم اظہر سہیل اور میں نے پینل انٹرویو کرتے ہوئے کچھ تیکھے سوالات کئے تو اس نے کہا تھا مجھے اپنے دادا کے طرز عمل پر افسوس ہے، انہیں قیام پاکستان کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے تھی۔ میریٖ خیال میں تاریخ پاک و ہند نے وقت کے دوراہے کے ساتھ ساتھ بہتے ہوئے جہاں جہاں خود اپنی اصلاح کی ہے، ان میں سے ایک مقام یہ بھی تھا کہ سکھ دھرم نے متعصب ہندو کی چالّوں کو قیام پاکستان کے چند سالوں بعد ہی بھانپ لیا تھا۔ سکھوں کو معلوم ہو چلا تھا سیکولر ہندوستان کا قیام دراصل انکے جملہ حقوق غصب کر کے درپردہ ایک متعصب اور ہٹ دھرم ہندو سٹیٹ کا قیام تھا جو پنڈت جواہر لعل نہرو اور اندرا گاندھی کے بعد آج مودی کے ہندوستان کا مکمل چہرہ بن کر اُبھرا ہے۔آفرین ہے اسلامیان ہندوستان کی لیڈرشپ، مفکرین اور ریفارمرزپر جنہوں نے شروع دن سے ایک کلیدی بات پلے باندھ رکھی تھی، یہی کہ ہندوستان کا متعصب اور ہٹ دھرم ہندو اس دھرتی پر کسی دوسرے دھرم یا دین کے ماننے والوں کو برداشت نہیں کرتا، اُس نے گئے وقتوں میں بدھ مت کے پیروکاروں کو جس طرح اس خطہ زمین سے لہولہان کر کے دیس نکالا دیا وہ سارا منظر نامہ بھی اسلامیوں کے ہمیشہ پیش نظر رہا۔ حالانکہ بدھ مت اسی سرزمین کی پیدوار تھا، اس کی نشو و نما بھی اسی خطہ میں ہوئی مگر اس کا نام و نشان مٹا کر رکھ دیا گیا۔ آج اس دھرم کے ماننے والے ہمالہ کے دامن میں پائے جاتے ہیں۔ تعصب کی آگ میں گندھے ہوئے ہندو مسلمانوں کو بھی بدیسی کہا کرتے تھے اور تاریخ گواہ ہے انہیں گاہے بگاہے ہندوستان سے دیس نکالے کی دھمکیاں بھی ملتی رہتی تھیں۔ مگر پھر کیا ہوا؟ یہی متعصب ہندو مشاہیر اسلام کے پیش کردہ دو قومی نظریے کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔ مسلم لیڈر شپ اور بزرگان دین نے مسلمانان ہندکو جدا گانہ تشخص کا ایسا سبق پڑھایا جس کے روبرو سیکولر ہندوستان اور مخلوط ہندوستانی قوم کے سارے نظریات ملیا میٹ ہو گئے۔ مسلمانوں کو بتایا گیا تھا دھرتی، سرزمین اور وطن کی حیثیت ثانوی ہے، بنیادی رشتہ کلمہ طیبہ کا ہے، جو وطن بھی بناتا ہے اور سرزمین بھی، گویا اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے۔ بدقسمتی سے سکھ دھرم کے ماننے والوں کو بہت سی تاریخی حقیقتیں سمجھ میں نہ آ سکیں۔ وہ تعصب کی ڈوریوں سے بنے ہوئے ہندو کے جال میں ازخود جا بیٹھے اور جب آنکھ کھلی تو اندرا گاندھی کی آتش فشاں حکومت تھی، جس نے آدھا پاکستان توڑ کر مظلوم کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا، یہی نہیں سکھوں کو بھی سبق سکھانے کی ٹھان لی۔ متعصب ہندوؤں کے معاشی استبدار کاہی نتیجہ تھا کہ سکھ ایک بڑی تعداد میں ہندوستان سے نکل مکانی کرکے یورپ میں آباد ہوگئے اور جو رہ گئے انہوں نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق کسمپرسی کے عالم میں خالصتان تحریک کا آغاز کر دیا۔ سکھوں کیلئے یہ بڑا ابتلا کا وقت تھا۔ اپنے اکثریتی علاقے میں کشمیریوں کی طرح انہیں بھی دوسرے بلکہ تیسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا۔ خالصتان تحریک کے ساتھ ہی 1986ء میں خالصتان لبریشن فورس کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اسکے روح رواں ارور سنگھ اور سکھویندر سنگھ بیر تھے۔ اندرا گاندھی کے دور میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے خالصتان تحریک میں جو روح پھونکی تھی، اسے کچلنے کے باوجود اس میں چنگاریاں آج تک موجود ہیں۔ حال ہی میں بھارتی ریاست پنجاب کے ضلع بٹالہ میں نابھہ سنٹرل جیل پر بعض نامعلوم افراد نے حملہ کر کے خالصتان لبریشن فورس کے لیڈر ہرمیندر سنگھ منٹو اور انکے چھ ساتھیوں کو رہا کرا لیا لیکن بھارتی میڈیا کے مطابق انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں رواں دواں تحریک آزادی کے ساتھ ساتھ قدرے آہستگی کیساتھ خالصتان کی آزادی کی تحریک بھی چل رہی ہے۔ بعض حلقے تو اس تحریک میں شدت بھی دیکھ رہے ہیں، جن کا کہنا ہے مشرقی پنجاب میں فی الوقت اس قبیل کی چار تنظیمیں سرگرم عمل ہیں، جن کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ مشرقی پنجاب میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان کے ایوان اقتدار میں براجمان لیڈر شپ اپنی رعونت کے زیر اثر کسی محروم طبقے کی بات سُننے کیلئے تیار نہیں، ادھر علیحدگی پسند عناصر نکسل باڑی میں بھارتی فوج کیخلاف نبرد آزما ہیں، علاوہ ازیں آسام میں بھی علیحدگی کی زوردار تحریک چل رہی ہے۔ ایسے میں ہرمیندر سنگھ منٹو کی نابھہ جیل سے بعض عناصر کے ہاتھوں رہائی اور پھر گرفتاری ظاہر کرتی ہے کہ خالصتان کی تحریک آزادی کو شعلہ جوالہ بننے میں اب صرف ایک آنچ کی ہی رہ گئی ہے۔ دوسری جانب تعجب خیز امر حسب عادت وہی ہے پاکستان پر الزام تراشی۔ حد یہ کہ وزیر اعلیٰ مشرقی پنجاب سکھبیر سنگھ نے بھی نابھہ جیل واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے، لیکن اسکے بین بین انہوں نے ڈی جی جیل خانہ جات سمیت چار افسران کی معطلی کے احکامات بھی جاری کئے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے یہ واقعہ انکی انتظامیہ کا اپنا کیا دھرا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بھارت میں کرنسی بحران کی وجہ سے سارا ملک سراپا احتجاج ہے۔ کانگریسی رہنماؤں کا کہنا ہے بحران جاری رہا تو ملک فساوات کی لپیٹ میں آ جائیگا، لیکن مودی حکومت اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے سرحد اور کنٹرول لائن پر جارحیت کا بار بار اعادہ کر رہی ہے۔ بھارتی حکمرانوں کو ہوش نہیں، پاگل پن کے زیر اثر آگ سے کھیلنا بڑی جنگ کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے۔ زمیں کا حبس کھلے آسماں کی زد میں ہو تو اپنا گھر بچانے کی سعی کرنی چاہیے۔ پورے بھارت میں ٹرینیں رُک رہی ہیں۔ کلکتہ میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بیز جی نے پچیس ہزار افراد کی احتجاجی ریلی کی قیادت کی، دہلی میں مودی کا پُتلا نذر آتش کیا گیا، کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے پارلیمنٹ میں گاندھی کے مجسمے کے سامنے کھڑے ہو کر احتجاج ریکارڈ کرایا۔ ممبئی اور اتر پردیش میں بھی ہزاروں افراد نے ریلیاں نکالیں۔ حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو مودی کو اپنے دور کے سب سے بڑے اندرونی بحران کا سامنا ہے۔ لیکن انکی اقتدار پرستی اور پاکستان دشمنی کے جذبات بدستور بھڑک رہے ہیں۔ وہ ہندو انتہا پسندی کے منفی جذبوں کو پہلے ہی ہَوا دے چکے ہیں، جس نے سیکولر ازم کا بُت پاش پاش کر دیا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کی طرح سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ متعصب ہند و اپنی اکثریت کے بل بوتے پر چھوٹی قوموں اور گروہوں کا معاشی و سیاسی استحصال کرنے کی راہ پر گامزن ہے جس کا محض علاج اور مداوار اپنے اپنے جداگانہ تشخص کی نشو و نما ہے۔ جن نتائج پر دو صدی پہلے مسلمانان ہند کے بزرگ پہنچ گئے تھے‘ وہ آج سکھ اور دیگر بھارتی اقلیتوں کی منزل مُراد ٹھہر چکی ہے‘ لہٰذا اب بھارت کو ٹکڑوں میں بٹنے اور ریزہ ریزہ ہونے سے کوئی طاقت نہیں بچا سکے گی۔ علامہ اقبال نے ہندو لیڈر شپ کو مخلصانہ مشورہ دیا تھا کہ وہ سیکولر ملک بنانے کے بجائے مخلصانہ ہندو سٹیٹ قائم کریں‘ صرف یہی مساعی انہیں پاش پاش ہونے سے بچا سکتی ہے لیکن انکے اس مشورے پر کان نہیں دھرا۔ یہی بدقسمتی ہے جو بھارتی ہندو ذہنیت کی کوکھ میں پل کر جوان ہو چکی ہے۔ نجانے آئندہ یہ کیا رنگ لائے گی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024