90ء کی سیاسی ڈگر اور پیپلز پارٹی کی خواہش
احمد کمال نظامی
ہفتہ رفتہ کے دوران قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے رہنما اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے پارٹی پنجاب کے نئے صدر قمرالزمان کائرہ، سیکرٹری جنرل افضل ندیم چن کے ہمراہ فیصل آباد کا دورہ کیا۔ خورشید شاہ نے اپنے دورہ فیصل آباد کے موقع پر وزیراعظم میاں نوازشریف کا بیان کہ پیپلزپارٹی 1990ء کی سیاست کر رہی ہے کااپنی پریس کانفرنس میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ عمل ہم نہیں مسلم لیگ(میاں نوازشریف) کر رہی ہے۔ عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنے کے دوران چپ رہتے تو نظام گر(میاں نوازشریف کی حکومت) جاتا۔ میاں نوازشریف کو نظام کی نہیں اپنی فکر ہے انہیں اخلاقی طور پر اقتدار چھوڑ دینا چاہیے۔ گیند اب نوازشریف کے کورٹ میں ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو کتنا سپریم سمجھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم 24ویں ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے اور جمہوریت کی ایک نئی منطق پیش کرتے ہوئے کہا کہ بی بی کا بیٹا پارلیمنٹ میں نہیں تو کوئی جمہوریت نہیں ہے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے مسلم لیگ(ن) کے وفاقی وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیرعلی کے ایک روز قبل ایک تقریب میں پیپلزپارٹی پر نشترزنی کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیپلزپارٹی کی کرپشن کی کہانیاں سپریم کورٹ میں گونج رہی ہیں۔ بلاول بتائیں انکل مظہر ٹپی کس کے فرنٹ مین تھے۔ ماڈل گرل ایان علی کس کا پیسہ لے جا رہی تھی۔ بلاول پہلے اپنے انکل شرجیل میمن، اپنی پھوپھی سے پیسہ واپس لیں پھر احتساب کی بات کریں اور خودساختہ جلاوطن واپس آئیں اور خود کو احتساب کے لئے پیش کریں۔ گو عابد شیرعلی کی ان تلخ بلکہ کڑوے سچ پر پیپلزپارٹی کے رہنما مولانا بخش چانڈیو نے عابد شیرعلی کو مسخرا قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنی ماسی کی بیٹی کو بچانا چاہتے ہیں۔ ان کے والد چودھری شیرعلی تو مسلم لیگ(ن) کو کرپٹ ہی نہیں بلکہ قاتل بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کا اشارہ صوبائی وزیر قانون رانا ثنااللہ کی طرف تھا جن کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ مولابخش چانڈیو نے ایک بات بڑی مزیدار کہی کہ عابد شیرعلی خودفیصلہ کریں کہ ان کے والد سچ بولتے ہیں یا جھوٹ، ایسی ہی صورت حال ہمیں قائد حزب اختلاف کے بیان میں نظر آ رہی ہے کہ اگر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیپلزپارٹی خاموش رہتی تو نقشہ ہی تبدیل ہو سکتا تھا۔ بات اتنی سی ہے کہ جس طرح سٹاک ایکس چینج کی تیزی کو گرانے اور مندی کا رجحان پیدا کرنے کی غرض سے وافر مال مارکیٹ میں پھینک دیا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی پانچ سالہ حکومت اگر اپنی مدت اقتدار پوری کر سکی تو یہ مسلم لیگ(ن) کی فرینڈلی اپوزیشن کی کرامت تھی اور پیپلزپارٹی کے پاس میاں نوازشریف کا ساتھ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اگر خورشید شاہ سندھ کی بجائے پنجاب سے بلاول کو کسی ضمنی انتخاب میں کامیاب کرنے کی بات کرتے تو پیپلزپارٹی کے پنجاب میں زندہ ہونے کی دلیل اور دعویٰ کو تسلیم کر لیتے۔ رہی 90ء والی بات تو پیپلزپارٹی کی خواہش ہے کہ مسلم لیگ(ن) اپنی مدمقابل طاقت کے طور پر پیپلزپارٹی کو پیش کرے حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ اب پیپلزپارٹی کے اس خواب کو دیوانے کا خواب ہی قرار دیا جا سکتا ہے اور پیپلزپارٹی کے رہنما چودھری اعتزازاحسن کا یہ دعویٰ کہ اگر ہم سڑکوں پر نکلے تو حکومت کی چولیں ہل جائیں گی۔ سڑکوں پر منجی پیڑی ٹھونکنے والے بہت پھرتے ہیں حکومت ان کی خدمات حاصل کرے گی۔ میاں نوازشریف کو 90ء کی سیاست میں جانے کی اب کسی بھی زاویہ نگاہ سے ضرورت نہیں ہے کیونکہ کوئی اسے تسلیم کرے یا نہ کرے پاکستان کامرانیوں کے سفر کا آغاز کر چکا ہے اور تمام تر قومی کوتاہیوں اور خطاؤں کے باوجود سی پیک ایجنڈے کو قومی ایجنڈا قرار دے کر جس منزل کی طرف ہم گامزن ہو چکے ہیں اس کا کریڈٹ میاں نوازشریف سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ لہٰذا 2018ء کے انتخابات اسی ایجنڈا پر ہوں گے۔ جس میں پیپلزپارٹی کہیں نظر نہیں آتی۔ بقول غالب 90ء کی سیاست کی بات دل کو خوش رکھنے کے لئے غالب یہ خیال اچھا ہے۔ رہی بات بلاول کے پہلے قائد حزب اختلاف اور پھر وزیراعظم بننے کی تو حالات جس انداز میں اپنا رخ تبدیل کر چکے ہیں ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلنے والی بات ہے۔دوسری طرف فیصل آباد میں بلدیاتی اداروں کی سربراہی کے لئے تاحال جنگ جاری ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنما چودھری شیرعلی نے ایک مرتبہ پھر رانا ثنا پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور کہا کہ میئر کے ٹکٹ کے لئے رانا ثنانے 12کروڑ روپے مانگے ہیں۔ چودھری شیرعلی کے الزام پر رانا ثنا گروپ کی طرف سے ملک نواز ایم پی اے جو اپنے بھائی رزاق ملک کو شہر کا میئر بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ فیصل آباد کی سیاست پر رانا ثناکی گرفت دیکھ کر شیرعلی کملا گئے ہیں۔ شیرعلی نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف کے این اے 84 سے ان کے بیٹے عابد شیرکے مقابلے میں ٹکٹ ہولڈر فرخ حبیب کو حمایت کا وعدہ کر کے راناثنانے مخصوص نشستوں کے انتخاب میں تحریک انصاف کو 18چیئرمینز کی حمایت حاصل کی۔ جس پر تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب نے پریس کانفرنس کر کے کہا کہ فیصل آباد میں بڑا ڈاکو بننے کے لئے مسلم لیگ(ن) کے دونوں گروپوں میں لڑائی جاری ہے اور دونوں کے ایک دوسرے پر الزامات درست ہیں۔ رانا ثنانے سمن آباد میں عالیشان ڈیرہ بنا کر اسے جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بنا رکھا ہے جبکہ عابد شیروزیر بن کر کروڑوں روپیہ بھتہ وصول کر رہے ہیں۔ گویا فیصل آباد میں میئر کے محاذ پر شدید اختلافات جاری ہیں جس کو حل کروانے میں پارٹی قیادت تاحال ناکام ہے۔ گزشتہ روز چودھری شیرعلی نے ایک مرتبہ پھر رانا ثناکے ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ رانا ثناتاہم بدستور اپنے گروپ سے فیصل آباد کا میئر سامنے لانا چاہتے ہیں اور چوہدری شیرعلی بھی میدان چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ لہٰذا وزیراعظم میاں نوازشریف سے براہ راست مداخلت کا مطالبہ دیرینہ کارکنوں کی طرف سے زور پکڑتا جا رہا ہے کیونکہ بلدیاتی نظام کے تحت محدود اختیارات پر چیئرمین، وائس چیئرمین اور کونسلرز بھی شدید احتجاج کرنے لگے ہیں۔