اسماعیل ہانیہ کی شہادت اور مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ!!!!

فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی توانا آواز اسماعیل ہانیہ شہید ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اسرائیلی حملے میں جام شہادت نوش کیا ہے۔ اس حملے میں ان کا ایک محافظ بھی شہید ہوا ہے۔ اسماعیل ہانیہ کو اسرائیلی فوج کافی عرصے سے نشانہ بنا رہی تھی۔ اس سے پہلے غزہ میں ہونے والے تین اسرائیلی فضائی حملوں میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کی بہن سمیت چوبیس افراد شہید ہوئے تھے۔ اس سے پہلے اپریل میں اسرائیلی افواج نے غزہ میں فضائی حملہ کر کے اسماعیل ہانیہ کے تین بیٹے اور تین پوتے شہید کر دئیے تھے۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کہتے ہیں کہ ہانیہ کے قتل کا بدلہ لینا تہران کا فرض ہے۔ اسرائیل نے اپنے لیے سخت سزا کی بنیاد فراہم کی ہے اور ایران اپنے ملک کے اندر ہونے والے اسماعیل ہانیہ کے قتل کا بدلہ لینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ مجرم اور دہشتگرد صیہونی حکومت نے ہمارے گھر میں ہمارے مہمان کو شہید اور ہمیں سوگوار کیا ہے۔
 اسرائیلی افواج کی بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیوں کے بعد دنیا یہ مت سمجھے کہ اس ظلم کے بعد ردعمل نہیں آئے گا۔ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں اسرائیل کی حمایت کے ذریعے دنیا کے امن کو ختم کرنے کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ دنیا کو ایک تباہ کن جنگ کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اسرائیلی افواج گذشتہ چند ماہ کے دوران ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کر چکے ہیں۔ اسماعیل ہانیہ اور ان کا خاندان ظالم اسرائیلی افواج کے نشانے پر رہا اور فلسطین کی آزادی کے لیے اسماعیل ہانیہ نے ایک قابل عزت راہ میں برسوں تک جان داؤ پر لگا کر جدوجہد کی اور شہادت کے لیے ہمیشہ تیار رہے اس عظیم مقصد کی خاطر انہوں نے اپنے بچے بھی اس راہ پر قربان کیے ہیں۔ سات اکتوبر 2023 سے اب تک ہانیہ خاندان کے ساٹھ سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔ ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے اس واقعے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے جبکہ افغان حکومت نے بھی اسماعیل ہانیہ کی شہادت کو امت مسلمہ کے لیے بڑا نقصان قرار دیا ہے۔ روس، ترکیہ اور قطر نے بھی ایران میں اسماعیل ہانیہ کی شہادت پر مذمتی بیانات جاری کیے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ ایران نے بدلے کی علامت سرخ جھنڈا لہرا دیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نے بھی اسماعیل ہانیہ کے قتل پر شدید مذمت کی ہے۔ دفتر خارجہ نے تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کے قتل کی مذمت کی ہے۔ پاکستان ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق 
 پاکستان تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کے قتل کی مذمت کرتا ہے، ہانیہ کے اہل خانہ اور فلسطینی عوام سے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان ہر طرح کی دہشتگردی کی مذمت کرتا ہے، پاکستان ماورائے عدالت اور ماورائے علاقہ، سرحد کسی بھی دہشتگردی کی مذمت کرتا ہے، ہمیں اس حملے کے وقت پر شدید حیرت ہے۔
کاش کہ امت مسلمہ متحد ہو جائے ہم کب تک اپنے بچوں، جوانوں، بزرگوں اور خواتین کہ شہادتوں کو برداشت کرتے رہیں گے۔ یہ مذمتی بیانات، وقتی غصے ایسے مسائل کا حل ہرگز نہیں ہے۔ جسے جو زبان سمجھ آئے اسے اسی زبان میں جواب دینا چاہیے۔ اسرائیل مسلسل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی بھی کر رہا ہے، اسرائیل مسلسل فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے اور عالمی طاقتیں اس دہشت گرد ریاست اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ایسے واقعات امت مسلمہ کے لیے سبق ہیں۔
مذہبی حلقوں کے حوالے سے ہر سطح پر مختلف رائے پائی جاتی ہے، کہیں لوگ مذہبی قیادت کے ساتھ جذباتی وابستگی رکھتے ہیں تو کہیں تنقید بھی ہوتی ہے۔ گذشتہ چند روز میں مذہبی شدت پسندی کے واقعے کی وجہ سے ہر سطح پر تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹی ایل پی قیادت کے لیے مشکل وقت ہے۔ تحریک لبیک پاکستان پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی قیادت اور کارکنان کو تیار کرنا ہے کہ مختلف مذہبی معاملات اور بالخصوص حساس ترین معاملات میں کس طرح کا برتاؤ ہونا چاہیے، کیسے معاملات کو قانون کے تابع رہتے ہوئے چلانا ہے، ملک کو افراتفری اور انتشار سے بچانا ہے، اسلام کے نام پر ملک بننے والے ملک میں اسلام کے نام پر اجتماع اور اتحاد ہونا چاہیے اس معاملے میں تقسیم خطرناک ہے۔ ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو یہ امن و امان کے لیے بڑا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ مذہبی قیادت کے مسائل کو حل کرے۔ اداروں کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسے تمام مسائل یا اختلافات جنہیں آئین پاکستان کے ذریعے حل کیا جا چکا ہے۔ ان سے ہٹنے کے بجائے عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اسی طرح مدارس کے معاملے کو بھی سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا چاہیے، مدارس کے مالی معاملات بینکوں کے ذریعے چلائے جائیں، ان کے فنڈز کا پورا پورا حساب رکھا جائے۔ مدارس کے ساتھ جڑے تمام سرکاری اداروں میں میرٹ پر تقرریاں اور تعیناتیاں ہوں۔ بالخصوص سب سے پہلے رجسٹریشن کا کام مکمل ہونا چاہیے۔ چونکہ مدارس کی رجسٹریشن اور فنڈز کا معاملہ بہت حساس ہے اس لیے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر کوئی کام نہیں ہونا چاہیے۔ اب تو ملک کے نامور اور جید علماء کرام نے بھی مدارس کی رجسٹریشن اور اگر کہیں مدارس میں ریاست مخالف عناصر کے حوالے سے شکوک و شبہات ہیں تو علماء نے حکومت کے ساتھ مل کر ریاست دشمن عناصر کے خلاف کارروائی پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ اہم پیشرفت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ علماء کو ساتھ ملا کر مدارس میں جہاں کہیں ریاست دشمن عناصر کی موجودگی ہے اسے ختم کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس معاملے میں انٹیلی جنس بیسڈ اپریشنز کے ذریعے صرف مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف ہی ایکشن ہونا چاہیے۔ یہ بہت حساس معاملہ ہے۔ اس کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ مدارس کے اکاؤنٹس کا نظام بہتر بنائیں اور داخلے کا نظام بھی کمپیوٹرائزڈ ہونا چاہیے۔ مدارس کے نظام میں اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے۔
مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما کا اتفاق ہے کہ اگر کسی مدرسے میں کوئی ریاست دشمن چھپے ہوئے ہیں تو ہم ان کے خلاف کارروائی کیلئے تیار ہیں۔ اتحاد تنظیمات المدارس کے عمائدین، مفتی منیب الرحمان اور علامہ شبیر میثمی سمیت دیگر علما نے حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے ریاست کی جانب سے مدارس کی رجسٹریشن میں تاخیر پر اظہار خیال کیا ہے وہ کہتے ہیں ہم تو چاہتے ہیں رجسٹریشن ہو اور بینک اکاؤنٹ کھولے جائیں تاکہ ہر چیز کا ریکارڈ رہے۔ مفتی منیب الرحمان کہتے ہیں ہم نے کبھی ملکی سلامتی کے خلاف کام نہیں کیا، ہمیشہ مسلح افواج کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ دینی مدارس نے کبھی فساد سے فائدہ اٹھانے کا سوچا تک نہیں، ہمیں حریف کے بجائے حلیف سمجھا جائے۔
ملک کے جید علماء کرام اگر متفق ہیں تو پھر حکومت کو مدارس کے معاملے میں قواعد و ضوابط اور بنیادی چیزوں پر کام کر کے اس مسئلے کا پائیدار حل نکالنا چاہیے۔ کیا ہی اچھا ہو حکومت ملک بھر کے مدارس کو رجسٹرڈ کرے، ان کے اخراجات کا تخمینہ لگائے اور ریاست خود ان مدارس نگہبانی کرے، سارا نظام خود چلائے۔ اگر تعلیمی شعبے میں سکولوں، کالجوں اور جامعات کو فنڈز دئیے جا سکتے ہیں تو پھر مدارس کے معاملے یہ حکمت عملی کیوں اختیار نہیں کی جا سکتی۔ بہرحال علماء کرام نے گیند حکومت کی کورٹ میں ڈال دی ہے دیکھنا یہ ہے کہ حکومت مدارس حلیف بنتی ہے یا پھر مدارس کو حریف سمجھتے ہوئے کارروائیاں کرتی ہے۔ یاد رہے دشمن بنانا آسان اور دوست بنانا مشکل ہوتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن