آزاد کشمیر الیکشن اور مستقبل کا منظر نامہ …1
قارئین ! آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات کا مرحلہ دو اگست کو مخصوص نشتوں کے انتخاب کے ساتھ مکمل ہوجائے گا، جنرل نشتوں پر انتخاب کے نتائج کم و پیش حسب توقع ہی نکلے ، تحریک انصاف چھبیس نشتوں کے ساتھ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ۔ البتہ پیپلزپارٹی نے کچھ اضافی نشتیں لیکر سب کو حیران کردیا ۔ حالانکہ دیکھا جائے تو بلاول عین عروج کے وقت انتخابی مہم لپیٹ کر کشمیر سے امریکا جا بیٹھے تھے ،اس کے باجود ان کی جماعت گیارہ نشتیں لے گئی جب کہ مریم نواز جو آخری روز تک کشمیر میں ہی رہیں ان کی جماعت محض چھ نشتوں پر کامیاب ہوسکی ۔ سیاسی دانشور کہتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بی بی مریم نے کشمیر میں کھڑے ہوکر توپوں کا رخ بھارت کی بجائے واپس پاکستان اور عمران خان ہی کی طرف موڑے رکھا ،کسی جلسے جلوس میں ان کی زبان سے مودی ،بھارت یا مقبوضہ کشمیر میں یکطرفہ طور پر نافذ پانچ اگست 2019 کے اقدام کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ بات نہیں سنی گئی ، بلکہ وہ کشمیر میں کھڑے ہوکر بھی اپنے والد کے مقدمات ،سیاسی انتقام اور عمران خان کا رونا ہی روتی رہیں ، یہی نہیں انھوں نے کشمیر جو تحریک آزادی کا بیس کمیپ کہلاتا ہے ،وہاں رہ کر بھی پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں پر تنقید کا سلسلہ ختم نہ کیا ،رہی سہی کسر ان کے والد کی پاکستان مخالف افغان سیکوٹی ایڈوائرز حمد اللہ محب سے ملاقات نے پوری کردی ۔غالبا یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں کو انکا یہ انداز پسند نہ آیا اور انھوں نے پانچ سال سے اقتدار میں رہنے والی جماعت کا بوریا بستر وادی سے گول کردیا ۔ آزاد کشمیر کے الیکشن نتائج کا فوری اثر کچھ روز بعد سیالکوٹ میں بھی نظر آیا جہاں مسلم لیگ نواز کا نہ صرف گزشتہ کئی الیکشنز میں ناقابل شکست رہنے کا ریکارڈ ٹوٹ گیا بلکہ تحریک انصاف کے نوخیز امیدوار 2018 اکے مقابلے میں بیس ہزار ووٹ بھی ذیادہ لے اڑے ۔ گلگت بلتستان اور کشمیر کے بعد یہ ن لیگ کے لئے تیسرا بڑا دھچکا تھا کیونکہ اول الذکر دو جگہ تو ن لیگ ہی برسراقتدار تھی جب کہ سیالکوٹ کی نشست بھی ن لیگ کی ہی جیتی ہوئی تھی ۔ مسلم لیگ ن کے اکابرین کو اب اپنی اس جارحانہ پالیسی کو بدلنا پڑے گا کیونکہ ہر بار دھاندلی کا راگ نہیں الاپا جاسکتا ،خصوصا کشمیر جہاں نگران حکومت کا رواج نہیں اور پچیس جولائی کے الیکشن بھی راجہ فاروق حیدر کی حکومت نے ہی کروائے ہیں ، یعنی آخری وقت تک انتظامیہ اور تمام وسائل ن لیگ کی مٹھی میں ہی رہے ،اس کے باجود دھاندلی کا الزم کچھ جچتا نہیں ۔ کشمیر کی انتخابی مہم میں حیرت انگیز طور پر مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نہیں گئے ، تجزیہ نگار اس بات کو لیکر شریف فیملی کے اندرونی اختلافات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو شاید اب کافی بڑھ چکے ہیں ، تاہم شہباز شریف اور دیگر ن لیگی رہنمائوں کو چاہے تھا کہ وہ مریم بی بی کو انتا گائیڈ ضرور کرتے کہ کم ازکم کشمیر جیسے حساس خطے میں قومی یکجتہی کو پارہ پارہ کرنے والے بیانات دینے سے گریز کریں ۔ آزاد کشمیر میں ہمیشہ پرامن انتخابات کی روایت رہی ہے ، وہاں کی جماعتیں عموما انتخابی نتائج کو متنازعہ بنانے سے گریز کرتی ہیں کیونکہ اس کا براہ راست فائدہ بھارت اٹھا سکتا ہے ،جب پاکستان مقبوضہ کشمیر کے انتخابات کو جعلی اور وہاں کی حکومتوں کو کٹھ پتلی قرار دیتا ہے تو بھارت جوابا آزاد کشمیر کے انتخابات کو متنازعہ بنانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے ،ایسے میں اگر پاکستان کی بڑی جماعتوں کے قائدین آزاد کشمیر میں کھڑے ہوکر غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کرینگے تو بھارت کا کام آسان ہوجاتا ہے ۔ اب اسکو آپ محض اتفاق کہیں ،پیپلزپارٹی کی مقبولیت میں اضافہ کہیں ،بلاول بھٹو کا دورہ امریکا کہیں یا پھر اسٹیبلشمنٹ سے انکے درپردہ رابطے یا مفاہمت کی سیاست کہیں کہ ان کی جماعت کو وادی کے الیکشن میں ایک معقول بلکہ توقع سے ذیادہ حصہ مل گیا ، اس لئے مریم بی بی نے مبینہ دھاندلی کیخلاف شاہراہ دستور پر جو دھرنا دینا تھا وہ اب ممکن نہیں رہا ، یہ واضح ہے کہ پیپلزپارٹی انکا ساتھ نہیں دے گا۔(جاری ہے)
اور باقی پی ڈی ایم کی جماعتوں کی کشمیر میں کوئی خاص مقبولیت نہیں جس کے بل بوتے پر وہ اپنے ووٹ چرائے جانے کا دعویٰ کرسکیں ۔ راقم نے جی بی الیکشن کے بعد بھی لکھا تھا کہ مریم اور بلاول کو یہ بات سمجھ لینی چاہے کہ انکا دھاندلی سے متعلق بیانیہ عوام کی توجہ حاصل نہیں کرسکا ۔ شاید بلاول کو یہ بات سمجھ آگئی اور انھوں نے جی بی الیکشن کے فوری بعد پی ڈی ایم سے اپنے راستے جدا کرلئے ، البتہ مریم بی بی نے شاید ابھی کچھ مزید اپنی جماعت کو رسوا کرنا تھا سو وہ کرگئیں ۔
اب صورتحال یہ ہے کہ اس تمام عرصے میں دھاندلی کے شور کے باجود بھی عمران خان کی وفاق اور بلوچستان کو ملاکر پورے ملک میں چھ حکومتیں قائم ہوچکی ہیں ۔ جی بی اور آزاد کشمیر اسمبلی کو تو 2023 ء کے بعد بھی اسی طرح رہنا ہے ، سینیٹ میں بھی حکومتی اتحاد کا پلڑا بھاری ہے ، قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد سے لیکر جہانگیر ترین گروپ کی ناراضگی تک ہر حربہ استعمال کرلیا گیا لیکن نشتوں کے اعداد و شمار کو تبدیل نہیں کیا جاسکا، خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی دو تہائی اکثریت ہے ، پنجاب میں بھی باوجود کوشش کے بزدار حکومت کو رخصت کرنے کا کوئی حربہ اب تک کاریگر ثابت نہ ہوسکا ، مزے کی بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو ایک بار پھر اس پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لانے کی بات کر رہے ہیں جہاں ان کی جماعت کو ایوان میں صرف سات نشتیں حاصل ہیں ، اگر وہ یہ بندوق چوہدری پرویز الہی کے کندھوں پر رکھ کر چلانا چاہتے ہیں تو انہیں خبر ہو کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی کا بیٹا مونس الہیٰ تازہ تازہ وفاقی کابینہ کا حصہ بن چکا ہے ، یوں مرکز میں صرف چار نشتوں کے بل بوتے پر ق لیگ کو دو وزارتیں مل گئی ہیں ۔ گجرات کے چوہدریوں نے کبھی کچی سیاست نہیں کی ، اسپیکر پنجاب اسمبلی نے گزشتہ تین برس میں پنجاب کی سطح پر اپنا بھرپور اثر و رسوخ استعمال کر کے اپنی جماعت کو دوبارہ کھڑا ہونے کے قابل کردیا ہے ۔ان کی نظر اب اگلے عام انتخابات پر ہے ، ان کے لئے عثمان بزدار سے بہتر تعاون کر نے والا وزیر اعلیٰ اور کوئی نہیں آئے گا ،عثمان بزدار چوہدری پرویز الہیٰ کے دور وزارت میں ق لیگ کے ٹکٹ پر تحصیل ناظم تھے ،یوں جہاندیدہ پرویز الہیٰ کے مقابلے میں وہ ابھی طفل مکتب ہی ہیں ، چوہدریوں کو کسی بھی دوسرے شخص کی نسبت عثمان بزدار سے معاملات طے کرنا نہایت آسان ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عثمان بزدار کیخلاف پارٹی کے اندر اور باہر سے ہونے والی ہر سازش کے سامنے پرویز الہیٰ دیوار بن کر کھڑے ہوتے آئے ہیں ۔ اس لئے بلاول صاحب کی تازہ دھمکی بھی اپوزیشن کی باقی جماعتوں کو ایک بار پھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے سوا کچھ نہیں ۔ پنجاب میں تمام جماعتیں اب کنٹونمٹ اور بعد ازاں بلدیاتی الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں ، اب تو ویسے بھی موجودہ حکومت کے تین سال پورے ہونے کو ہیں اور پاکستان میں الیکشن کی تیاری کا سال ہوتا ہے ۔
ق لیگ کا اصل میدان بھی بلدیاتی الیکشن ہیں،مسلم لیگ ق کے پاس اب بھی اضلاع اور تحصیلوں کے سطح پر قابل ذکر امیدوار موجود ہیں جو مشرف حکومت میں ق لیگ کا حصہ رہے ہیں ، چوہدری برادران کے ان سے موثر رابطے ہیں ،یہ رابطے بلدیاتی الیکشن میں اپنا رنگ دکھائیں گے بلکہ ابھی سے دکھا رہے ہیں ۔ حالیہ سیالکوٹ الیکشن میں کامیاب ہونے والے احسن سلیم بریار کا خاندان بنیادی طور پر مسلم لیگ ق سے تعلق رکھتا ہے ،ان کے والد ٹکٹ لینے سے محض چند روز قبل تحریک انصاف کا حصہ بنے ۔ پنجاب میں اور بھی ایسے متعدد ایم این ایز اور ایم پی ایز ہیں جو جیتے تو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ہیں تاہم ان کے رابطے مسلم لیگ ق سے ذیادہ مضبوط ہیں ، یہ تمام لوگ اگلے الیکشن سے قبل ہوا کا رخ دیکھیں گے اور عین ممکن ہے (جاری ہے)
کہ پنجاب میں ق لیگ دوبارہ ایک موثر جماعت بن کر سامنے آجائے ۔ مرکز میں البتہ صورتحال آخری سال سامنے آئے گی ،میرا ذاتی تجزیہ یہ ہے کہ اگر آپ ایک لمحے کو یہ مان بھی لیں کہ عمران خان الیکشن کی بجائے کسی کی سلیکشن ہیں تو یہ بات کچھ دل کو لگتی نہیں کہ حکومتی امور سے نابلد اور ناتجربہ کار عمران خان تو سلیکٹ کر لئے جائیں اور جب وہ پوری طرح ان معاملات کو سمجھ جائیں اور خاطر خواہ تجربہ حاصل کرنے کے بعد ملکی اور عالمی سطح پر اپنی شخصیت کا ایک سحر بھی قائم کرچکے ہوں تو انہیں رخصت کردیا جائے ، سو حتمی علم تو اللہ کے پاس ہے لیکن حالات و واقعات اور مشاہدات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان اگلے پانچ سال بھی کہیں نہیں جارہا !!
(کل 31 جولائی میری سالگرہ کا دن تھا ، جنم دن پر سوشل میڈیا ،وٹس ایپ کے ذریعے مبارکباد دینے والے سب احباب کا شکریہ !)