یوم پاکستان اور جشن آزادی کی مہکاریں
23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک میں حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں علیحدہ وطن کے لیے قرارداد منظور ہوئی، آزاد وطن کا جو خواب شاعر مشرق وحکمت حضرت علامہ اقبالؒ نے دیکھا برصغیر کے مظلوم اور مجبور مسلمانوں نے حضرت قائداعظم کی عدیم المثال قیادت میں محض سات سال بعد وہ خواب سچ کر دکھایا ۔ ماہ اگست انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی کی یاد دلانے کے ساتھ ان قربانیوں کو تازہ کرتا ہے جو قیام پاکستان کے لیے ہمارے بڑوں نے دیں۔ تحریک پاکستان سے وابستہ اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں شریک بزرگ نسل کے نمائندے آج ہمارے درمیان موجود ہیں۔ کچھ صاحب فراش ہیں اللہ کریم انہیں جلد صحت کے پھول عطا کرے آمین‘ آل انڈیا مسلم لیگ اور بانی پاکستان کے محبان کے خانوادوں کے چشم وچراغ آج بھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان اور قوم کے لیے دیدہ ودل راہ فرش کئے ہوئے ہیں ۔’’کامیٹس‘‘ کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ایم ایس جنید زیدی ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز بھی ’’بڑے باپ،، کے ’’بڑے بیٹے‘‘ ہیں انکے والد مرحوم سید محمد زبیر زیدی تحریک پاکستان کے خاموش کارکن تھے ان میں وطن کی محبت ایسی رچی اور بسی تھی کہ جس پر فخرواعجاز کے کئی مینار تعمیر کئے جاسکتے ہیں! باقی باتیں ڈاکٹر جنید زیدی کی زبانی پڑھیے… میرے والد کا شہر لکھنو تھا یہ شہر اپنی تہذیب وتمدن میں آج بھی دنیا بھر میںشہرت کا حامل ہے ۔ زیدی فیملی شہر کے ممتاز خاندانوں میں شمار ہوا کرتی تھی۔ ماشاء اللہ میرے دادا جان صاحب جائیداد تھے۔ والد محترم سید محمد زبیر زیدی قائداعظم کے عاشقان میں شامل تھے ،انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پیغام کو عام کرنے میں لکھنو میں بہت خدمات انجام دیں۔ حضرت قائداعظم کی اپیل بلکہ حکم پر وہ لکھنو میں تمام جائیدادیں چھوڑ کر خوابوں کی سرزمین پاکستان چلے آئے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اباجی نے نئے اور آزاد وطن پہنچ کر اپنی جائیدادوں کے بدلے کوئی کلیم نہیں کیا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں نے آزاد وطن کی آزاد فضاء پانے کے لیے کتنے خون کے دریا عبور کئے تھے۔ ہندوستان سے پاکستان آنے والوں کی ہجرت تاریخ کا غیر معمولی واقعہ ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں کبھی کسی نے دوسری جگہ ہجرت نہیں کی۔ والد گرامی 2014ء میں اللہ کو پیارے ہوئے اور والدہ ماجدہ 2018ء میں جنت مکیں ہوئیں۔ میری تعلیم‘ ملازمت ‘ عزت اور ترقی کا سارا سہرا والدین کی دعاؤں کا ثمر ہے۔ والد محترم وفاقی دارالحکومت میں اس وقت سرکاری ملازم ہوئے جب اسلام آباد میں گز کے حساب سے زمین خریدی اورفروخت کی جاتی تھی یہ 1960-61 کا دور تھا‘ کبھی کبھی ہم اباجی سے سوال کرتے تھے کہ آپ نے اسلام آباد میں جائیداد کیوں نہیں بنائی؟ وہ مسکرا کر جواب دیتے! بچوں کو اچھی تعلیم دلا دی جائے یا صاحب جائیداد بنادیا جائے۔ میں نے بچوں کے محفوظ اور روشن مستقبل کا راستہ چنا۔ اب تم پڑھ لکھ گئے ہو خود ہی اپنے لئے گھر بار بنا لینا۔ 1984ء میں انگلینڈ سے میں نے پی ایچ ڈی کی تو اس روز میرے والدین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، ماں جی نے ڈگری دیکھ کر آنسوؤں سے اپنی خوشی کا جس طرح اظہار کیا تھا وہ منظر ناقابل بیان ہیں۔ ہم نے بھی اپنے والد محترم کی طرح ساری توجہ اور ساری سرمایہ کاری بچوں کی پڑھائی پر کی ۔ماشاء اللہ سارے بچے اعلی تعلیم یافتہ ہیں، بڑا صاحب زادہ علی جنید زیدی کمپیوٹر سافٹ وئیر ہے اس نے برطانیہ سے ڈگری لی۔ صاحب زادی ھاجرہ جیند نے ایم بی اے کیا۔ دوسری بیٹی سعدیہ جنید آرکیٹکٹ ہے۔ علی جنید زیدی کی نانی زبیدہ خاتون بہت اعلی پائیہ کی ناول نگار تھیں، خود میری اہلیہ اے آر خاتون نے علم وادب میں نام کمایا؛ 14 اگست ہمارے لئے عید سعید کا دن ہوا کرتا ۔والد صاحب کی خوشی قابل دید تھی شکر انے کے نوافل ،کھانے اور شیرنی کی تقسیم معمول تھا۔ والد صاحب پورا دن خوش وخرم نظر آتے ۔سقوط ڈھاکہ کے تلخ لمحات کا کچھ مت پوچھیں ابو جان کو اس قدر صدمہ لگا، گمان تھا کہ ان کی جان نہ چلی جائے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے زخم سے ہر گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی ۔کئی روز تک ابا جان نے کھانا پیٹ بھر کر نہیں کھایا ،میرے والد محترم پان کھانے کے عادی تھے سقوط ڈھاکہ کے بعد انہیں پان لاکر دیئے تو کھانے سے انکار کر دیا ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ پان بنگلہ دیش کے نہیں بھارت کے ہیں؟ بابا جان نے وطن کی محبت پر اپنا شوق قربان کر دیا اور وہ پھر مرتے دم تک اس پر قائم رہے ۔پاکستان میں معاشی‘ معاشرتی اور اقتصادی مسائل بڑھے تو والد محترم کہا کرتے تھے کہ
یہ وہ پاکستان نہیں جس کا خواب اقبال وقائدؒ نے دیکھا تھا ۔بانی پاکستان تو ایسا وطن دیکھنا چاہتے جہاں خوشحالی اورترقی ہو جو دوسرے مسلم ممالک کی معاونت کرے۔ 2007ء اور2014ء میں اللہ کریم کی مہربانی اور والدین دعاؤں کے نتیجے میں حکومت پاکستان نے دو اعزازات ستارہ امتیاز اور ہلال امتیازسے نوازا۔ اہل خانہ اور بچوں کی خوشی دونوں روز دوبالا ہوئی۔ وطن کو جب جب اور جہاں جہاں خدمات کی ضرورت پیش آئے گی ہم وہاں موجود ہوں گے جوش ملیح آبادی نے ٹھیک کہا تھا
اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانو میں
زندگی ہوش میںہے اور جو ش ہے ایمانو میں