تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتی صورتحال
افغانستان کی صورتحال دنیا بھر کے لئے تو جہ کا مرکز بن چکی ہے۔ افغانستان میں بدامنی اور خانہ جنگی کا خدشہ اہم امرہے۔ اس حوالے سے پا کستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ افغان جنگ سے کوئی تعلق نہیں نیز مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ اس ضمن میں افغانستان کاسیاسی حل نکالا جائے۔ دوسری جانب صدراشرف غنی سے طالبان کو براہ راست مذاکرات کی دعوت دی ہے۔اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر پر کوئی قابل ذکرکردار ادا نہیں کرسکی۔ نیز افغان مسئلہ کے حوالے سے بھارتی پروپیگنڈہ کا حصہ بن گئی۔ مودی سرکار کی بھرپور کوشش ہے کہ افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے پاکستان کے خلاف کسی حربے کے ذریعے ذاتی مفادات اور سازش کو انجام دیا جائے۔ اہم امریہ ہے کہ اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب نے ایک گمراہ کن رپورٹ جاری کی ہے۔ بوکھلاہٹ کا شکار بھارت پاکستان چین اور طالبان کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی گھنائونی سازش انجام دینے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ بھارت نے اس رپورٹ میں دہشت گردی کے نیٹ ورک ٹی ٹی پی کو بھی طالبان کا حصہ قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں طالبان نے اقوام متحدہ کے نام پر بھارت کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے نام نہاد رپورٹ یکسر مسترد کردی ہے۔ بھارت کشمیرمیں پسپائی کا شکار ہے مودی سرکار کی غلط پالیسیوں اور ناتجربہ کاری کے باعث معیشت زوال پذیر عوام بدحال ہیں۔ ایک ایسے موقع پر جب ساری دنیا افغان صورتحال سے باخبر ہے اور خطے کا امن مسئلہ سے جڑا ہے۔ بھارت کی پوری کوشش ہے کہ دہشت گردی کو فروغ دیا جائے اور پاکستانی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جائے۔ افغان طالبان نے اقوام متحدہ کے نام پر رپورٹ مسترد کرتے ہوئے بھارت کے دانت کھٹے کردیئے۔ اس سلسلے میں اہم امر یہ ہے کہ پاکستان اب کسی بھی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس ضمن میں پاکستان کا موقف انتہائی مضبوط ہے کہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت قائم ہونی چاہیئے۔ جس میں تمام فریق شامل ہوں۔ اس سلسلے میں اس اہم امر کی صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان میں امن قائم ہونے کا مطلب براہ راست پاکستان میں امن و استحکام کا قیام ہے اور اگر افغانستان میں طویل خانہ جنگی ہوئی تو پاکستان پر دوہرے اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔ پاکستان کی معیشت مزید بوجھ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس ضمن میں اہم امر یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت 30 لاکھ افغان مہاجر پہلے سے موجود ہیں نیز مزید واپس آسکتے ہیں۔ اس وقت افغانستان اور افغان طالبان تک رسائی کے لئے پاکستان ذریعہ بن چکا ہے۔یہ کہنا بے جانا ہوگا کہ عالمی سفارتکاری کا محور اور مرکز پاکستان ہے۔ اہم امر یہ ہے کہ امریکہ اور بھارت کے مفادات یکطرفہ ہیں۔ دونوں ممالک اپنے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے گٹھ جوڑ کے ذریعے ایک ہی راستے پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ امریکہ کو طویل افغان جنگ میں سوائے رسوائی اور نقصان کے کچھ حاصل نہ ہوا۔ سعودی عرب اس وقت افغان معاملے سے لاتعلق ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مضبوط دوستانہ تعلقات ہیں۔ پاکستان اس وقت جس پالیسی پر گامزن ہے۔ اْس کا تعلق براہ راست خطے کے امن و استحکام ہے ، پاکستان کی ہمیشہ سے یہ پالیسی رہی ہے کہ جنگ نہیں امن قائم ہو اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کئے جائیں چاہیئے مسئلہ افغانستان ہو یا پھر مسئلہ کشمیر، جارحیت اور سازش بھارت کی رگ رگ میں رچی ہے۔ اس ضمن میں اہم امر یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی سرپرستی بھارت کو حاصل ہے۔ نیز بھارت کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان میں امن قائم نہ ہو اور جاری جنگ و بدامنی کا بھرپور فائدہ حاصل ہو۔ اقوام متحدہ بھارت کی شاطرانہ چال کا حصہ بن چکا ہے۔ بھارت کی پوری کوشش ہے کہ طالبان اور چین کو پاکستان سے لڑایا جائے۔ اہم امریہ ہے کہ طالبان اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ یہ امر بھارت کے لئے تکلیف دہ ہے۔ اس ضمن میں بھارتی دہشت گردی کے اڈے خطرے میں ہیں۔ مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کے خلاف جنگ اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کی جنگ بھارت ہمیشہ سے ہارتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کا جعلی بھارتی رپورٹ کو اون کرنا حیرت انگیز امر اور اس ضمن میں سوالیہ نشان ہے۔ افغان طالبان بھارت کے ایجنڈے کے مخالف ہیں۔ پاکستان افغانستان میں غیر ملکی مداخلت کے خلاف ہے۔ نیز اس ضمن میں غیر ملکی دہشت گردی کے اڈے ختم ہوں۔