افغان روڈ میپ: وزیر اعظم کا بیانیہ
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں کوئی شخص پاکستان کا چہیتا نہیں ہے، ہم اپنے ہمسایہ ملک میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ بھارت نے بلیم گیم شروع کر رکھی ہے کہ افغان پالیسی پاکستانی فوج بناتی ہے۔یہ بے بنیاد پراپیگنڈا ہے اور حقیقت میں پاکستان کے سارے فیصلے حکومت کرتی ہے اور فوج ایک ادارے کے طور پر حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ایسے شواہد مل رہے ہیں کہ بھارت اور دیگر طاقتیں افغان خانہ جنگی کو ہوا دے رہی ہیں اور اسے دھکیل کر پاکستان میں پھیلانا چاہتی ہیں۔یہ ایک شیطانی کام ہے ۔ پاکستان نہ تو افغان سر زمین کو اپنے خلاف استعمال ہونے دے گااور نہ پاکستان کسی کو اپنی سر زمین افغانستان کے خلاف استعمال کرنے دے گا۔ افغان قوم غیرت مند ہے، اس نے اپنے زور بازو سے عالمی طاقتوں کو شکست دی ہے اور آئندہ بھی وہ سارے فیصلے خود کرنے کی قدرت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ کسی کی ڈکٹیشن نہیں لیتے۔پچھلے چالیس سال کی تاریخ اس حقیقت کوثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔
افغانیوں نے پہلے تو دنیا کی ایک سپر پاور روس کو شکست دی اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ اب امریکی اور نیٹو افواج شکست کھا کر واپس جا رہی ہیں۔یہ سوچنا کسی ستم ظریفی سے کم نہ ہوگا کہ امریکہ آئندہ افغانیوں کی تقدیر کے فیصلے کر سکے گا۔ امریکی اور نیٹو افواج جو کام بیس سال میں نہیں کر سکی اور انہیں یہاں سے ذلیل و رسوا ہو کر نکلنا پڑا ہے تو اب وہ کس منہ سے افغانیوں کی قسمت کے فیصلے کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر عالمی طاقتوں نے اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کی تو صاف ظاہر ہے کہ افغانستان میں امن بحال نہیں ہو سکتا اور پاکستان کو بھی صاف نظر آرہا ہے کہ افغان خانہ جنگی کے اثرات اور عالمی طاقتوں کی سازشوں کی وجہ سے پاکستان کو بھی امن نہیں مل سکتا۔ یہ ایک تکلیف دہ صورت حال ہے جس میں پاکستان کا کوئی قصور نہیں ہوگا۔پاکستان پہلے ہی پچھلے بیس سال میں نا کردہ گناہوں کی سزا بھگت رہا ہے۔ ہمارے ستر ہزار شہری شہادت کا جام پی چکے ہیں۔ہماری اربوں کی معیشت ڈھیڑ ہو چکی ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان امریکہ کا حریف تھا لیکن پاکستان کو دشمن سمجھ کر اسے دہشت گردی کے جہنم میں دھکیل دیا گیا۔ لڑائی افغانستان میں تھی، سارا جھگڑا افغانستان میں تھا لیکن پاکستان کی مسجدیں غیر محفوظ تھیں، پاکستان کی امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا، پاکستان کے بازاروں اور درباروں میں دھماکے ہو رہے تھے، حتیٰ کہ جنازوں کو بھی ٹارگٹ کیا گیا۔ پاکستان کا جی ایچ کیو نشانہ بنا۔ واہ آرڈینینس فیکٹری اور کامرہ کمپلیکس نشانہ بنے۔ کراچی ائیر پورٹ پر خون کی ہولی کھیلی گئی،ایف آئی اے اور آئی ایس ائی کے دفاتر میں دھماکے ہوئے اور پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ڈیڑھ سو پھولوں کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ امریکہ نے پاکستان کی سلالہ چوکی پر بم برسائے اور آیبٹ آباد میں رات کی تاریکی میں آپریشن کیا۔ وزیر اعظم عمران خان بجا طور پر کہتے ہیں کہ ان کی زندگی میں ایسا شرمناک دن کبھی نہیں آیا ہوگا۔ وزیر اعظم سوال کرتے ہیں کہ کیا ایک حلیف طاقت کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
اب پاکستان کو نت نئے خطرات سے ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ کوئی منہ کھولتا ہے اور کہتا ہے کہ پاکستان نے اگر طالبان کی حکومت بنوائی تو اسے یہ اقدام مہنگا پڑیگا کیونکہ طالبان کے اقدامات اور پالیسیوں کو دنیا پسند نہیں کرتی ۔ ملا عمر کے دور میں دنیا دیکھ چکی ہے کہ کس طرح افغانستان میں بنیادی حقوق کو پامال کیا گیا اور انتہا پسندی کو سرکاری پالیسی بنا لیا گیا۔ آج پاکستان پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ طالبان کو سمجھائے جبکہ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ افغان طالبان اپنی پالیسی سازی میں مکمل طور پر آزاد ہیں، وہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں ، موجودہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ چین اور روس کے ساتھ ان کا رابطہ ہے۔سعودی عرب اورامارات سے بھی وہ اپنے تعلقات بنا رہے ہیں، اس لئے پاکستان اس میدان میں واحد کھلاڑی نہیں ہے نہ پاکستان کے پاس جادو کی کوئی ایسی چھڑی ہے کہ وہ کابل کے معاملات کو کنٹرول کرسکے۔
افغان فیکٹر میں ایک بڑا کردار بھارت کا بھی ہے۔ عبداللہ عبداللہ دہلی جا کر نریندر مودی سے مل چکے ہیںاور راز و نیاز کی باتیں کر چکے ہیں۔پچھلے بیس برسوں میں بھارت نے افغانستان میں آزادی سے پائوں پھیلائے۔کابل کی حکومتیں عام طور پر بھارت نواز ہوتیں ہیں لیکن اب تو ہر افغان حکومت بھارت کے پائوں چاٹتی دکھائی دیتی ہے۔ افغان حکومتوں نے پاکستان دشمنی کی انتہا کر دی اور بھارت کو دہشت گردی کے اڈے قائم کرنے کی اجازت دی۔ بھارت نے انفرا سٹرکچر کی آڑ میں افغانستان میں اپنی فوج بھی پھیلا دی۔ پاکستان میں دہشت گردی کے ہر سانحے میں بھارت کا ہاتھ صاف نظر آتا ہے۔ کلبھوشن پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ اس نے تسلیم کیا ہے کہ وہ بلوچ شر پسندوں کو دہشت گردی کی ٹریننگ دیتا رہا ہے۔ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی صاف کہتے ہیں کی وہ بلوچستان کے عوام کو وہی حقوق دلوا کر رہیں گے جو اکہتر میں بھارت نے بنگلادیشی عوام کو دلوائے تھے۔اکہتر میں بھارت نے ننگی دہشت گردی کا مظاہرہ کیا تھا اور اب نریندر مودی بھی وہی حرکت دہرانا چاہتا ہے۔اس لحاظ سے پاکستان کی یہ تشویش بجا ہے کہ کہیں افغان سر زمین بھارتی دہشت گردوں کے استعمال میں نہ آئے جہاں سے وہ پاکستان کے خلاف خونی کھیل جاری رکھ سکیں۔
یہ منظر نامہ انتہائی خوفناک ہے مگر پاکستانی افواج چوکس ہیں اور وہ حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستا ن اپنی سلامتی اور خود مختاری کا تحفظ کرنا جانتاہے اور اللہ نے اسے یہ توفیق بھی عطا کی ہے۔ امریکہ اور عالمی دنیا کو وزیر اعظم کی حقیقت پسندانہ باتوں پہ غور کرنا چاہیے اور آگ سے کھیلنے سے باز رہنا چاہیے۔
٭…٭…٭