میں نے پاکستان بنتے دیکھا
پاکستان بنتے وقت میری عمر چھ سال تھی۔ مجھے یہ تو یاد نہیں ہے کہ میرے والد صاحب نے میری والدہ اور ہم تین بھائیوں کو کس ذریعہ سے سر ہند سے پٹیالہ بھیجا لیکن بعدمیں معلوم ہوا کہ انہوں نے ہندوستان کے افق پر نمودارہوتے کشیدگی کے بادلوں کو بھانپ کر یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں اپنے نانا کے پاس پٹیالہ بھیج دیا جائے جہاں وہ انسپکٹر پولیس تھے۔ والد صاحب کا خیال تھا کہ ہم سر ہند کی نسبت پٹیالہ میں زیادہ محفوظ رہیں گے لیکن ہوا اسکے بالکل برعکس۔ہم ایک دوپہر اپنے نانا کے وسیع و عریض گھر میں موجود تھے۔ ہماری والدہ دوپہر کے کھانے کیلئے آٹا گوندھ رہی تھیں اورہم بچے شاداں و فرحاں ان کے اردگرد کھیل رہے تھے۔ ہمارے نانابابو مہر علی صبح صبح خوشی خوشی اپنی ڈیوٹی پر گئے تھے۔ ہمارے ماموں شیخ غلام حسین جو پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل تھے اورکچھ عرصہ قبل سر ہند پولیس چوکی کے انچارج رہ چکے تھے۔ ماموں سخت پریشانی کے عالم میں ہماری نانی کے پاس آئے اورانہیں بتایا کہ مہاراجہ پٹیالہ نے اپنی فوج کومسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کے لئے کھلا چھوڑ دیا ہے اورہمارے گلی محلے جلد ہی خاک و خون کی لپیٹ میں آنے والے ہیں۔ اس لئے فوری طور پر یہ گھر چھوڑ دیا جائے اورکسی دوسرے محلے میں جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو پناہ لی جائے۔ افراتفری میں جس کے ہاتھ میں جو آیا اور جو ہاتھوں میں اٹھایا جاسکتا تھا وہ ساتھ لے لیا۔ اس دوران نانا جان بھی گھر پہنچ چکے تھے۔انہوں نے بھی یہی رائے دی کہ اب پٹیالہ مسلمانوں کامقتل بننے والا ہے۔ اس لئے کسی نسبتاً محفوظ جگہ پر چلے جاناچاہئے۔ ہمارا قافلہ گلی میں آگیا اورنامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ چند محلے چھوڑ کر ایک گلی میں کسی مسلمان کی بڑی حویلی تھی۔ ہرطرف سے لوگوں کا رخ اس حویلی کی طرف تھا۔ ہم بھی ان لوگوں میں شامل ہوگئے جو اس حویلی میں جارہے تھے۔ حویلی میں پہنچ کر اندازہ ہوا کہ سیکڑوں مرد عورتیں اور بچے ہم سے پہلے ہی اس حویلی میں موجود ہیں اور پھر کیا ہوا دھڑا دھڑگولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میری خالہ اوپر کی منزل سے نیچے کی طرف آرہی تھی۔ ایک روشن دان سے سنسناتی ہوئی ایک گولی آئی اور ان کے سر میں آکر لگی، خالہ کو اس وقت مرہم پٹی کی جو سہولت میسر ہوسکتی تھی وہ مہیا کی گئی۔ اللہ کا ایسا کرم ہوا کہ ان کی جان بچ گئی اوروہ گولی ساری عمران کے سرمیں رہی۔ نہ اس کا کوئی آپریشن ہوا اور نہ اسے نکالنے کی کبھی فکرہوئی۔ فائرنگ کی آوازوں سے پوری حویلی میں ہلچل مچی ہوئی تھی اورہر شخص اس فکرمیں غلطاں ہوگیاکہ اب اور کہاںپناہ لی جائے۔ ہم بھی ان لوگوں کے ساتھ ہو لئے جویہ حویلی چھوڑکر کسی اور قدر محفوظ مقام کی تلاش میں تھے۔ چند محلے چھوڑ کر پھر ایک ایسی ہی حویلی دکھائی دی۔ اب لوگوں کا رخ اس کی طرف تھا۔ ہم بھی وہاں چلے گئے چند منٹوں کے بعد اس حویلی کے مالک نے چیخ چیخ کریہ اعلان کیاکہ سکھوں کا ایک جتھہ اس حویلی پرحملہ کرنے کیلئے تیارہو رہا ہے۔ میری والدہ بھی ہم بھائیوں کو لے کربجلی کی تار کو ہاتھ لگانے کیلئے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جارہی تھیں، جب وہ صحن میں پہنچیں تو انکے دل میں یہ خیال آیا کہ میں جان دینے سے قبل بچوں کوپانی پلا لوں۔ وہ پانی کے نل کی طرف لپکیں اس دوران ہمارے ماموں نے ہمیں دیکھ لیا اور ابھی ہم پانی پی نہ پائے تھے کہ وہ گھسیٹ کر ہمیں اس حویلی سے باہر لے گئے۔ اسکے بعد ہمارا ٹھکانہ دکانوں کے آگے جو تخت لگائے جاتے ہیں ان کے نیچے نالیوں میں چھپ کر اپنے آپ کو بچانا تھا۔ ہمارے سامنے سڑک پر لاشوں کے ڈھیر دکھائی دیتے تھے یا گولی کی آواز یں تھیں۔ معلوم نہیں کتنے دن اور راتیں ہم نے ایسے بسر کیں اور آخر ایک روزہم نے یہ خوش خبری سنی کہ مسلمانوں کو جلد پاکستان بھیج دیا جائے گا۔ اس مقصد کیلئے ہدایت کی گئی کہ لوگ پٹیالہ کے ایک بڑے دروازے پر پہنچ جائیں جہاں ان کی تلاشی ہوگی اور انہیں بہادر گڑھ کیمپ بھیج دیا جائے گا اوروہا ں سے پاکستان روانگی کا پروگرام معلوم ہوگا۔ہمارے کنبہ کے سب ارکان اس دروازے پر پہنچ گئے جہاں اور بھی لوگ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ ہر شخص کی تلاشی لی گئی۔ اگر کسی کے پاس زیور تھا تو وہ چھین لیا گیا۔ ہم خالی ہاتھ تھے صرف تن کے کپڑے پہنے ہوئے اس میں بھی جگہ جگہ چھید تھے۔ بہادرگڑھ کیمپ میں پہنچ کر ہمیں ایک کوٹھری الاٹ ہوگئی اور جوکچھ میسر آتا تھا صبر و شکر کرکے وہ کھالیتے تھے۔ ایک روز میری والدہ اس کوٹھڑی کے باہر بیٹھی تھیں کہ ایک شخص ان کے ہاتھوں میں دو روٹیاں دے گیا۔ میری والدہ ابھی اس شش وپنج میں تھیں کہ ان دو روٹیوں کو کنبے کے تمام افراد میں کیسے تقسیم کریں کہ اچانک ایک کتا نمودار ہوا اور ان کے ہاتھ سے وہ روٹیاں چھین کر اور منہ میں دبا کر چلتابنا۔ میری والدہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بہادر گڑھ کیمپ میں ہی ہمارے ایک عزیز شیخ عبدالشکورکو جو ایک کڑیل جوان تھے سکھوں نے کسی بہانے سے کیمپ سے باہر بلایا اور انہیں شہید کردیا۔ شیخ عبدالشکور کے صاحبزادے شیخ عبدالسبحان پاکستان ائیر فورس سے سکوارڈن لیڈر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ بالآخر بہادر گڑھ کیمپ سے رخصتی اور پاکستان روانگی کا وقت آن پہنچا۔ ہم راج پور ریلوے اسٹیشن سے سپیشل ٹرین میں سوار ہوئے جہاں گاڑی قدم قدم پر رک جاتی تھی اورسکھ بلوائیوں کے نعرے پریشان کردیتے تھے۔ ہم خدا خدا کرکے اٹاری سے واہگہ کی حدود میں داخل ہوئے۔ ہمیں منزل کا کچھ علم نہیں تھا۔ رات بھر سفر کے بعد یہ گاڑ ی ایک ریلوے اسٹیشن پر رکی اور مسافروں کو بتایا گیا کہ یہی جگہ ان کی منزل ہے۔ یہ شاہ جیونہ کا ریلوے اسٹیشن تھا۔ لوگوں نے مطالبہ کیا کہ وہ پٹیالہ جیسے میٹروپولیٹن شہر سے ہجرت کرکے پاکستان آئے ہیں اس بنا پر اس گاڑی کو کسی اچھے شہر میں لے جایا جائے لیکن حکام یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھے اور غالباً ان مذاکرات میں ایک دو روز بیت گئے، بہرحال یہ گاڑی شاہ جیونہ سے روانہ ہوئی اور جھنگ ریلوے اسٹیشن پہنچی۔ یہاں لوگوں سے کہا گیا کہ ہندو جو دوکانیں اور مکان خالی کر گئے ہیں پٹیالہ سے آنے والے مہاجرین ان جگہوں پر حسب سہولت آباد ہو جائیں۔