اتوار ‘ 21؍ذی الحج‘ 1442ھ‘ یکم اگست 2021ء
بھارتی دھمکی پر غیرملکی کرکٹرز کشمیر پریمیئر لیگ سے دستبردار
بھارت کا خبث باطن کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ وہ ہر جگہ پاکستان کے خلاف سازشیں کرتا رہتا ہے۔ ہر فورم پر، ہر میدان میں پاکستان کو نیچا دکھانے میں مصروف رہتا ہے۔ گرچہ بیشتر مقامات پر اسے منہ کی کھانا پڑتی ہے مگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا۔ اب بھارتی کرکٹ بورڈ کے ایک اعلیٰ افسر نے ان تمام کرکٹروں کو جو 16 اگست سے آزادکشمیر پرپمیئر لیگ میں حصہ لے رہے تھے، دھمکی دی کہ اگر وہ آزادکشمیر لیگ میں کھیلے تو بھارت میں ان کا کھیلنا ممکن نہیں رہے گا اور ان کا بائیکاٹ کیا جائے گا جس کے بعد ان تمام کرکٹروں نے کشمیر لیگ کھیلنے سے انکار کر دیا ہے۔ ظاہری بات ہے یہ ان کی روزی روٹی کا مسئلہ ہے۔ بھارت انڈین پریمیئر لیگ کھیلنے والے کھلاڑیوں کو بھاری معاوضہ دیتا ہے۔ اس لئے وہ بھارت کی دھمکی ملنے کے بعد اپنے فیصلے سے دستبردار ہو گئے ہوں۔ اب کشمیر پریمیئر لیگ کے میچ میں صرف پاکستانی کھلاڑی ہی ایکشن میںنظر آئیں گے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان حکومت اور اس کے ادارے ہمارے کتنے مخالف اور دشمن ہیں۔ اس کے باوجود جو لوگ بھارت سے دوستی کا راگ الاپ کر اپنا گلہ خراب کر رہے ہیں، ان کو شرم آنی چاہئے۔ جو شاید انہیں کبھی نہیں آنی کیونکہ شرم نام کی کوئی چیز ان کے پاس ہے ہی نہیں۔ کہاں گئے وہ نام نہاد دانشور جو کہتے پھرتے ہیں کہ موسیقی اور کھیل کی کوئی سرحد نہیںہوتی۔ یہ آفاقی چیزیں ہیں۔ اب ان کو کیوں سانپ سونگھ گیا ہے۔ وہ بھارت کے خلاف کیوں نہیں بولتے۔ اگر ایسا کوئی فیصلہ پاکستان نے کیا ہوتا تو اب تک ان لوگوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہوتا۔
٭٭٭٭٭
میری زندگی کا مقصد نالہ لئی کی تعمیر ہے: شیخ رشید
قربان جائیں اس نیک مقصد پر جو شیخ جی کی 50سالہ سیاسی زندگی میں تو پورا نہ ہوسکا شاید ان کے بعد کوئی اور فرزند راولپنڈی اس کام کو پورا کرکے ثواب کمائے گا۔ زمانہ طالب علمی کی سیاست گردی سے آج تک شیخ رشید اکثر و بیشتر اقتدارکے مزے لوٹتے رہے ہیں۔ شاید اس وقت یہ ان کی زندگی کا مقصد نہیں تھا۔ اس وقت شریف برادران کی خوشنودی ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ پھر وقت بدلا تو مشرف کی خوشنودی ان کا مرکز و محور بنی۔ اس وقت بھی وہ چاہتے تو نالہ لئی تعمیر کرواکے اسے پرسکون نالہ بنا سکتے تھے جو ہر سال بارش میں بپھر کر راولپنڈی کے باسیوں کی زندگی اجیرن کرتا رہتا ہے مگر صرف زبانی کلامی یہ کردوں گا وہ کردوں گا کے اعلانات پر ہی انہوں نے اکتفا کیا اور نالہ لئی اسی طرح سیلاب میں بپھرتا رہا۔ نہ اس کے کنارے بنے نہ اس پر سے تجاوزات ختم ہوئیں نہ اس کی صفائی ہوئی۔ اب خدا جانے کیوں بارش کے بعد سیلابی صورتحال میں ایک مرتبہ پھر شیخ جی خواب خرگوش سے بیدار ہوئے اور انہیں پنڈی والوں کی تکالیف یاد آگئیں۔ وہ بھی تب جب فوجی جوان کشتیاں لے کر نالہ لئی کے متاثرین کو نکالنے کیلئے پہنچے۔ اب دیکھتے ہیں شیخ صاحب کب اپنی زندگی کے اس مقصد کو پورا کرتے ہیں۔ اعلانات بہت ہوچکے اب عمل بھی کرکے دکھائیں تاکہ پنڈی والوں کوان پر یقین آئے ورنہ وہ تو آپ کے بیان پر منہ چھپا کر ہنس رہے ہونگے۔
٭٭٭٭٭
ترین گروپ کا نذیر چوہان سے اظہار یکجہتی
اب کس کام کا یہ اظہار یکجہتی، حکومت نے جو کام لینا تھا لے لیا، ہمارے ہاں ویسے بھی کام نکلنے بعد ٹشو پیپر کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی روایت عام ہے۔ خاص طور پر حکمران تو اس معاملہ میں بہت حساس ہوتے ہیں وہ کسی قسم کی رعایت دینے کے موڈ میں نہیں ہوتے۔ اب بجٹ منظور ہوچکا، آزادکشمیر اسمبلی کے الیکشن ہوچکے، چینی کی من مانی قیمتیں مقرر ہوچکیں تو پھر بھلا ترین گروپ کے ناز و نخرے کیوں مزید اٹھائے جائیں۔ اب جس جس نے بغاوت میں حصہ لیا، سر اٹھا کر چلنے کی بات کی یا اپنے معاملات کیلئے آواز بلند کی انہیں تو حساب دینا ہی ہوگا۔ یاد رہے لکڑیوں کا گٹھا ایک دم ایک ساتھ نہیں توڑا جاسکتا۔ ایک ایک کرکے لکڑی کو الگ الگ کرکے توڑا جاتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں اس داروگیر کے دور میں کون کون اپنے گروپ کے ساتھ مخلص رہتا ہے۔ حکومت کی کوشش تو یہی ہوگی کہ ایک ایک کرکے سرگرم افراد کو توڑا جائے باقی خود سدھر جائیں گے۔ غالباً اس کی شروعات ہوچکی۔ آگے چند ایک اور نام بھی سامنے آرہے ہیں اخبارا ت میں۔ سو اب دیکھتے ہیں اگلی باری کس کی آتی ہے۔ اس لئے یہ وقت ترین گروپ کیلئے خاصہ کٹھن ہے۔ انہیں۔۔۔؎
اک دوسرے سے کرتے ہیں پیار ہم
اک دوسرے کے واسطے مرناپڑے تو ہیں تیار ہم
کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایسا نہ ہوکہ ’’لائی بے قدراں نال یاری تے ٹٹ گئی تڑک کرکے‘‘ والا منظر لوگ دیکھیں۔
٭٭٭٭٭
کرونا سے صحت یاب ہونے میں کچھ وقت لگے گا: مریم نواز
یہ کیا بات ہوئی۔ لگتا ہے آزادکشمیر الیکشن میںشکست کو مریم بی بی نے کچھ زیادہ ہی دل پرلے لیا ہے۔ ورنہ ایسی بھی کیا عوام سے دوری۔ کرونا کی وجہ سے وہ پہلے بھی بیمار ہوئی تھیں مگر انہوں نے اس قرنطینہ کی حالت میں بھی عوام سے رابطہ برقرار رکھا تھا مگر اب تومحسوس ہوتا ہے کہ سیالکوٹ کی شکست نے بھی ان پر برا اثر کیا ہے جس کی وجہ سے وہ مکمل طور پر سب سے لاتعلق سی ہوکر بیٹھ گئی ہیں مگر کب تک۔ چند روز بعد انہیں اس قرنطینہ سے بہرحال باہر آنا ہوگا لوگوں کا سامنا کرنا ہوگا ۔ تب بھی لوگ ان سے بہت سے سوال کریں گے اور ان کا جواب مانگیں گے۔ اہم سوال تو یہی ہوگا کہ آزادکشمیر اور سیالکوٹ میں یہ کیا ہوا کس طرح اتنی بڑی شکست ہوئی وجوہات تو سب جاننا چاہیں گے۔ اگر بے ایمانی ہوئی ہے اور حکومت نے دھاندلی کی ہے تو پھر یہ خاموشی کیسی۔ حشر نہ سہی شور ہی برپا کیوں نہیں کرتے۔ کم از کم آزادکشمیر اور سیالکوٹ میں ہی مسلم لیگ (ن )اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دے۔ اب تو چہ میگوئیاں ہونے لگی ہیں۔ کہاں طوفان اٹھانے کے دعوے کہاں یہ خاموشی۔ ہوسکتا ہے یہ طوفان سے پہلے کا سکون ہو مگر حقیقت میں اب وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ بعد میں یاد آنے والا مکا اپنے منہ پر مارنا بہتر ہوتا ہے۔ایک سال بعد الیکشن کا دور آنے والا ہے دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک‘‘
٭٭٭٭٭