آج ہم مسلمان عیداُلاضحی (عید ِ قربان ، بقر عید، بڑی عید) منا رہے ہیں ۔ آج سے تقریباً 4 ہزار سال پہلے کے اُس واقعہ کی یاد میں جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی رضا جُوئی کے لئے اپنے جواں سال بیٹے حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لِٹا کر اُن کی گردن پر خُود اپنے ہاتھوں سے چھری چلا کر اُنہیں ’’ذبح ‘‘ (قربان) کرنے کی کوشش کی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے دوست ( خلیل اللہ علیہ السلام) کی قربانی قبول کرلی اور ایک مینڈھا (Ram) بھجوا دِیا اور حُکم دِیا کہ ’’ اے خلیل اُللہ ؑ!اپنے بیٹے کے بجائے اِس مینڈھے کو قربان کردو!‘‘
معزز قارئین! آج بھی مختلف ملکوں اور قوموں میں ، دیوتائوں دیویوںاور بعض آسمانی قوتوں کو خُوش کرنے کے لئے اِنسانی قربانی کا رواج ہے؟ ۔ عاشقِ رسول ؐ ، علاّمہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ …
’’ غریب و سادہ و رنگیں ہے، داستانِ حرم!
نہایت اِس کی حسینؓ ، ابتداء ہے اسمعٰیل !‘‘
…O…
’’ایک حُسینؓ بھی نہیں!‘‘
علاّمہ اقبالؒ دسمبر 1931ء میں ’’ عالمی مسلم کانگریس‘‘ میں شرکت کے لئے 8 دِن تک بیت اُلمقدس میں رہے۔ وہاں آپؒ نے ’’ ذوق و شوق ‘‘ کے عنوان سے ایک معرکہ آرا نظم لکھی ، جس کے اِس ایک شعر کو ہر دَور میں اہمیت حاصل رہی ہے …
’’قافلہ حجاز میں ایک حُسینؓ بھی نہیں!
گرچہ ہے تاب دار ابھی، گیسوئے دجلہ و فرات!‘‘
…O…
یعنی۔ ’’ حجاز کے قافلے کو دیکھو، اِس میں ایک بھی حُسین( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نظر نہیں آتاجو استبداد اور مطلق العنافی کے خلاف بے باکانہ کھڑا ہو جائے ، اپنا سر کٹوا دے ، لیکن راہ حق سے اِدھر اُدھر نہ ہواور دوسری طرف دیکھو دجلہ اور فرات کے گیسوئوں میں ابھی تک پیچ و خم باقی ہیں ‘‘۔ معزز قارئین! نہ جانے مجھے اِس مرحلے پر تحریک پاکستان کے مخالف جمعیت عُلمائے ہند کے صدر ،مولانا حسین احمد مدنی کیوں یاد آ رہے ہیں ؟۔ علاّمہ اقبالؒ نے جو کچھ اُن کے بارے میں کہا وہ آئندہ کسی کالم میں عرض کروں گا ۔
’’ہاتھی والے پھر حرکت میں ؟‘‘
معزز قارئین! 20 مئی 2017ء کو سعودی عرب کے دارالحکومت ’’ریاض ‘‘میں 34 مسلمانوں ملکوں کے سربراہوں کی کانفرنس میں امریکی صدر "Donald Trump" مہمان خصوصی تھے۔ کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے "The New World Order" پیش کِیا تھا، کسی نے اعتراض نہیں کِیا اور نہ ہی ’’حسینیتؓ ‘‘کی بات کی ؟۔ کانفرنس کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ ،اسرائیل ؔکے وزیراعظم اور ’’رومن کیتھلک کلیسا کے سربراہ‘‘ ۔ "Pope Francis" سے ملاقات کے لئے "Vatican City" چلے گئے تھے۔ اِس پر دوسرے دِن میرے کالم کا عنوان تھا’’ ہاتھی والے ‘‘ پھر حرکت میں آگئے؟‘‘۔
دراصل 10 جنوری 1991ء میں جب، "Elephant" (ہاتھی ) کے انتخابی نشان والی ’’ری پبلکن پارٹی ‘‘ کے "George W. Bush Senior" امریکی صدر تھے ، جنہوں نے عراق پر چڑھائی کی تھی۔تو 10 جنوری کو 1991ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ ہاتھی والے حرکت میں آ گئے !‘‘۔ چونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق بھی امریکی ’’ری پبلکن پارٹی ‘‘ سے ہے ، لہٰذا میرے کالم کا عنوان تھا ’’ ہاتھی والے پھر حرکت میں آگئے؟‘‘۔
’’سعودی عرب کا روایتی رقص!‘‘
اِس سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور شاہی خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ ہاتھ میں تلوار پکڑ کر سعودی عرب کا روایتی رقص کِیا تو مجھے اپنے صدور اور وزرائے اعظم کی محرومی پر شرمندگی ہوئی کہ ’’کسی بھی سعودی بادشاہ نے اُنہیں اپنے ساتھ رقص کرنے کی دعوت نہیں دِی اور نہ ہی سعودی عرب کے کسی ہم مسلک عُلماء صاحبان کو؟‘‘۔ پرسوں (30 جولائی، بروز جمعرات ) محترم امام کعبہ شیخ عبداللہ بن سلیمان نے اپنے خطبۂ حج میں دُنیا بھر کے مسلمانوں کی معلومات میں بے حد اضافہ کرتے ہُوئے اِس بات پر زور دِیا کہ ’’ دُنیا کے سارے مسلمان بھائی ، بھائی ہیں!‘‘۔
پیغمبر انقلاب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے تو ریاست ِ مدینہ کی بنیاد ہی ’’ مواخاۃ ‘‘ (بھائی چارے) پر رکھی تھی، جب انصارِ مدینہ نے مہاجرین مکہ کو اپنی آدھی سے زیادہ جائیداد اور دولت تحفے میں دے دِی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ ’’ کیاموجودہ دَور میں مسلمان بادشاہ ، صدور ، وزرائے اعظم یا فوجی آمراپنی اپنی آدھی جائیداد یا دولت اپنی رعایا (عوام ) کو تحفے میں دے کر اُن سے ’’ بھائی چارا‘‘ قائم کرسکیں گے؟۔ معزز قارئین! عالمِ اسلام کی اطلاع کے لئے عرض کرتا ہُوں کہ ’’ مصّور ِ پاکستان ، علاّمہ اقبالؒ جب وکالت کرتے تھے تو وہ اپنی اور اپنے خاندان کی ضرورت کے مقدمات اپنے پاس رکھ کر باقی مقدمات اپنے دوستوں / شاگردوںمیں بانٹ دیتے تھے اور بانی ٔ پاکستان جنابِ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے تو یہ کِیا تھا کہ ’’ گورنر جنرل آف پاکستان کا منصب سنبھالتے ہی اپنی جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا‘‘۔ میرا خیال ہے کہ ’’ فی الحال مسلمانوں کے دو ہی طبقوں کو قائم رکھا جائے ۔ ایک طبقہ قربانی کرے اور دوسرا طبقہ قربانی کرنے والے مسلمان بھائیوں سے قربانی کا گوشت مانگ لِیا کرے یا قربانی کرنے والے خود یہ ثواب کا کام کریں۔
علاّمہ اقبالؒ نے اپنے ایک شعر میں ہر متمول مسلمان کو اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام سُنایا تھا کہ … ؎
’’جو حرفِ قُل اْلَعفو، میں پوشیدہ ہے اب تک!
اِس دَور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار !‘‘
یعنی۔ ’’ اِس وقت تک قرآن پاک کا جو حرف ؔ(کہ ،اپنی ضرورتوں سے جو کچھ بچے خُدا کی راہ میں خرچ کردِیا جائے)۔
شاید اِس دَور میں ( یا آئندہ دَور میں ) وہ حقیقت نمودار ہو جائے !‘‘۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024