ہفتہ ‘10 ؍ ذوالحج 1441 ھ‘ یکم اگست 2020ء
قربانی کے گوشت کی تقسیم اور کھانے میں احتیاط کریں
آج عید الاضحی ہے۔ جسے بڑی عید بھی کہتے ہیں اور عید قرباں بھی یعنی قربانی والی عید۔ عید کے ان تین ایام میں دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح کروڑوں پاکستانی بھی سنت ابراہیمیؐ ادا کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کریں گے۔ قربانی کے بعد اصل امتحان اور مرحلہ گوشت کی تقسیم کا آتا ہے۔ جب سے فریج اور ، ڈیپ فریزر نے گھروں میں جگہ بنا لی ہے۔ گوشت کی تقسیم میں ڈنڈی مارنے کا سلسلہ دراز ہو گیا ہے۔ جب تک یہ گھروں میں نہیں تھے۔ گوشت خراب ہونے کے خوف سے گوشت جلد از جلد سارا تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ اس وقت بس اتنا ہی ہوتا تھا کہ اچھا گوشت لوگ خود رکھ لیتے یا افسروں کو بھیج دیتے تھے۔ باقی رشتہ داروں کو دیتے جو بچتا وہ فقرا میں تقسیم کر دیتے تھے۔ اب تو سالم کا سالم بکرا یا رانیں فریج کی زینت بن جاتے ہیں۔ حالانکہ قربانی کی روح گوشت ان لوگوں تک پہنچانا ہوتا ہے جو مستحق ہوں، جنہیں سارا سال گوشت کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ عیدکے موقع پر انہیں بھی گوشت مل جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں پہلے سے کھانے پینے والے موٹو اور بڑی بڑی توند والے قربانی کا سارا گوشت خود ہی چٹ کر جاتے ہیں۔ زیادہ گوشت خوری کی وجہ سے اکثر لوگ خواہ امیر ہوں یا غریب ہسپتال پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے ڈاکٹر بار بار میڈیا پر لوگوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ پرخوری سے اجتناب کریں اور گوشت کھانے میں اعتدال سے کام لیں۔ بہتر یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ گوشت غربا اور مستحقین میں تقسیم کیا جائے تاکہ قربانی کی اصل روح پر عمل ہو…
٭٭٭٭٭
کراچی میں بارش، سول انتظامیہ نے فوج طلب کر لی
خدا خدا کر کے کراچی میں کھل کر برسات ہوئی ہے۔ ورنہ عرصہ سے خشک موسم کراچی والوں کی جان ناتواں پر ستم ڈھاتا رہا ہے۔ لوگ حسرت کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھتے رہتے تھے۔ موسم بدلا تو اس برس کھل کر ابر برسا اور جل تھل ایک ہو گیا۔ گندگی سے بھرے نالے اور گٹر ابل پڑے۔ نکاسی آب کا نظام برسوں سے صفائی نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی بند تھا۔ کچھ اس طرح ابل پڑا کہ سڑکیںاور گلیاں گندے نالے میں تبدیل ہو گئیں۔ پانی گھروں، دکانوں ، پلازوں میں داخل ہو گیا۔ اب اس بلائے ناگہانی سے نمٹنے کے لیے سندھ حکومت اور کراچی انتظامیہ کے پاس کوئی پلان تھا نہ کوئی طریقہ۔ افراتفری کے ماحول میں اپنی اپنی سی کوشش سب نے کی مگر سیلاب بلاخیز کے آگے بند باندھنے میں ناکام رہے۔ جب کراچی گندے پانی کے جوہڑ میں تبدیل ہو گیا۔ شہری ڈوبنے لگے تو ہنگامی حالات پر قابو پانے میں سول انتظامیہ نے ناکام ہونے کے بعد وہی پرانا نسخہ آزماتے ہوئے۔ فوج کو طلب کر لیا کہ وہ امرت دھارا بن کر اس مرض ناگہانی سے نجات دلا سکے۔ یہی سندھ حکومت اور کراچی انتظامیہ جو بات بات پر فوج کے حوالے سے اپنی اپنی بولی بولتے ہیں۔ ہر بات میں مین میخ نکالتے ہیں۔ اب فوج ہی کی مدد لینے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ یہ کرنا فوج کا کام نہیں اس کام کے لیے سول انتظامیہ ہی کافی ہونی چاہئے۔ مگر افسوس ہمارے ہاں اکثرسول انتظامیہ جلدہی ہانپ کانپ جاتی ہے اور فوج کی طرف دیکھنے لگتی ہے۔
٭٭٭٭٭
گھوٹکی : لڑائی میں گرفتار مرغا 8 ماہ بعد رہا
یہ کوئی مزاحیہ کہانی نہیں اصل حقیقت پر مبنی خبر ہے۔ خبریں پڑھنے اور سننے والوں کو یاد ہو گا کہ 8 ماہ قبل مرغوں کی لڑائی کرانے والے یعنی مرغے لڑانے والوں کے دنگل پر پولیس نے ہلہ بول دیا۔ لیکن مرغے اور ان کے مالکان بروقت راہ فرار اختیار کرنے میں کامیاب رہے۔ شو مئی قسمت ایک عدد مرغا اور اس کا مالک گرفتار ہوا۔ داخل زنداں ہوا۔ انہیں غیر قانونی طور پر مرغے لڑانے کے الزام میں 8 ماہ کی سزا کاٹنا پڑی۔ اب جونیک باقی مرغے اور ان کے مالکان فرار ہوئے تھے۔ میدان چھوڑکر بھاگ نکلے تھے اس لیے انہیں تو ’’بھگیل‘‘ یعنی میدان چھوڑ کر بھاگنے والا بھگوڑا کہہ سکتے ہیں۔ یہ مرغا اور اس کا مالک مرد میدان کہے جاسکتے ہیں۔ کیوں یہ بھاگے نہیں گرفتار ہوئے۔ اب رہائی کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ گھوٹکی کے تمام مرغ باز اپنے مرغوں سمیت ان کے استقبال کے لیے جمع ہوتے اور انہیں جلوس کی شکل میں شہر لایا جاتا جہاں ان کے اعزاز میں تقریب منعقد ہوتی۔ ڈھول باجوں کے ساتھ انہیں ہار پہنائے جاتے اور فاتح کی ٹرافی دی جاتی یہ اعزاز کیا کم ہے کہ ایک مرغ کو پہلی بار اتنی سزا جھیلنا پڑی۔ انسانوں کی بات اور ہے وہ اپنے اچھے برے اعمال کی وجہ سے جزا و سزا پاتے ہیں۔ ایسا تو پہلی بار ہوا ہے (ہمارے ہاں) کہ ایک بے زبان جانور بھی سزا یافتہ ہو گیا۔ مرغ کے مالک کو شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس کا مرغا بچ گیا ورنہ پولیس والے اس کا روسٹ بنا کر کب کی دعوت اڑا چکے ہوتے۔
٭٭٭٭٭
پی ٹی اے کا پب جی اور بیگو ایپلی کیشن بحال کرنے کا فیصلہ
پب جی پر پابندی لگانے والے زیادہ دیر تک یہ پابندی برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا معلوم نہیں۔ ابھی تو والدین پی ٹی اے والوں کو دعائیں دے رہے تھے کہ خدا انہیں خوش رکھے اس پابندی کی وجہ سے کئی بچے اور نوجوان ذہنی مریض بننے سے بچ گئے ہیں۔ یہ گیم بھی بلیو ویل گیم کی طرح نہایت خطرناک ہے۔ جس طرح بلیو ویل کی وجہ سے سینکڑوں نوجوان اور بچے راہی ٔ ملک عدم ہوئے تھے اسی طرح اس گیم کی وجہ سے متعدد بچے اور جوان موت کا شکار ہوئے ہیں۔ لاک ڈاؤن ہو یا سمارٹ لاک ڈاؤن اس میں فراغت ہی فراغت ہے کرونا نے سکول کالج ویران کر رکھے ہیں۔ اس حالت میں صرف یہی راستہ رہ گیا ہے کہ نوجوان اور بچے سارا دن گھروں میں بیٹھ کر موبائل فونز پر پب جی اور اس قسم کی دیگر پر تشدد اور ذہنی خلجان بڑھانے والی ایپلی کیشن سے دل بہلائیں یا وقت گزاریں۔ جس کی وجہ سے ان کے مزاج میں تشدد جارحانہ پن اور گستاخانہ رویہ پیدا ہو رہا ہے۔ برداشت اور تحمل مزاجی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ سب کچھ چھوڑیں خودکشی کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ اس لیے ایسی چیزوں پر پابندی ضروری تھی مگر نجانے کیوں اب پی ٹی اے والوں نے اپنی ہی لگائی گئی پابندی واپس لے لی ہے۔ اب بچے اور نوجوان ایک بار پھر پب جی کھیلتے نظر آئیں گے اور گھر والے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
٭٭٭٭٭٭