دنیا بھر میں مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے لیکن پاکستان میں راتوں رات چیزوں کی قیمتوں میں جس طرح اضافہ ہوتا ہے اس کی مثال دنیا میں شاز و نادر ہی ملے گی کیونکہ ایوانوں میں موجود مافیا ہی آٹا‘ چینی ‘ دال اور دواؤں کی نہ صرف قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار ہے بلکہ ان چیزوں میں ملاوٹ بھی ارباب اختیار کی ملی بھگت سے ہی ہوتی ہے اور پاکستان میں المیہ یہ ہے کہ دودھ‘ آٹا‘ گھی‘ دالیں سمیت کوئی بھی چیز نہ تو مناسب قیمت پر دستیاب ہے اور مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی غیر معیاری چیزیں فروخت ہورہی ہیں۔اسی طرح اعداد وشمار سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر سال ہزاروں لوگ غیر معیاری ادویات کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں حالانکہ دواؤں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں لیکن اس قدر مہنگی ادویات خریدنے کے باوجود غیر معیاری ہونے کے باعث ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ ایوانوں میں بیٹھے لوگ قومی خزانے کو ماہانہ اربوں روپے میں پڑتے ہیں لیکن ان کی کارکردگی ہمیشہ سے غور طلب رہی ہے۔
دنیا بھر میں پرائس اور کوالٹی کنٹرول کی ذمہ داری مقامی حکومتوں کی ہوتی ہے جو انتہائی منظم طریقے سے اپنے اپنے علاقے میں مہنگائی اور ملاوٹ پر قابو پانے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کرتے ہیں لیکن یہاں بدقسمتی سے چاروں صوبوں میں کوئی ماڈل مقامی حکومتوں کا نظام نہیں ہے بلکہ ایسا بلدیاتی نظام رائج ہے جس میں اختیارات و وسائل پر صوبائی و وفاقی حکومتوں کا قبضہ ہے اور برائے نام کونسلرز و ناظم بنائے گئے ہیں جو اختیارات و وسائل کی کمی کا بہانہ بناکر عوام کو سہولتیں دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ دنیا بھر کے بہترین بلدیاتی نظام (جس طرح جنرل مشرف نے مقامی حکومتیں قائم کیں) کی طرح کا بلدیاتی نظام پاکستان میں رائج کیا جائے اور چونکہ اب بلدیاتی حکومتوں کی مدت پوری ہونے والی ہے تو ایک آئیڈیل اور بہترین نظام کے تحت نئے بلدیاتی انتخابات بروقت ہونے چاہئیں اور مقامی حکومتوں کے انتخابات تو حالت جنگ میں بھی نہیں رکنے چاہئیں کیونکہ بلدیاتی نظام ہی عوام کی دہلیز پر مسائل حل کرتا ہے۔
مہنگائی‘ چیزوں کی مصنوعی قلت اور ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف فوری قانون سازی کرکے سخت ترین سزاؤں کا تعین ہونا چاہئے اور ان جرائم میں ملوث لوگوں کے خلاف فوری ایکشن ضروری ہے کیونکہ عوام نے حکمراں جماعت کو بڑی توقعات رکھ کر منتخب کیا تھا لیکن ان کی کارکردگی عوام کے لئے مایوس کن ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو اس بات کا ادراک کرنا چاہئے کہ اﷲ نے انہیں ایک سنہری موقع دیا ہے کہ وہ ملک کے عوام کو بنیادی مسائل‘ مہنگائی‘ مصنوعی قلت‘ ملاوٹ سمیت دیگر مسائل سے نکالنے کے لئے پوری ایمانداری اور لگن کے ساتھ تیز ترین اقدامات اور قانون سازی کرے کیونکہ گزشتہ 2سال میں ان مسائل کی جانب اب تک کوئی سنجیدہ پیشرفت نہ ہونے کے باعث عوام ان سے سخت مایوس ہیں۔ اگر یہ موقع حکمراں جماعت نے گنوا دیا تو آئندہ الیکشن میں یہ کس منہ سے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے دعوے کرسکیں گے؟
خدارا مہنگائی‘ ملاوٹ اور مصنوعی قلت پر کاری ضرب لگائیں اور تیز ترین اقدامات سے ثابت کریں کہ واقعی آپ ان مسائل کے حل میں سنجیدہ ہیں اور ان مسائل کے حل میں رکاوٹ بننے والے تمام طاقتور مافیاز کا آپ مقابلہ بھی کرسکتے ہیں۔ عوام اب تک آٹا چینی مافیا کے خلاف کارروائی کی منتظر ہے۔ ملاوٹ اور کرپشن پر سزائے موت کا قانون فوری طور پر منظور ہونا چاہئے لیکن ساتھ ساتھ عدالتوں کو پابند کیا جائے کہ ان جرائم میں ملوث لوگوں کا فیصلہ 3ماہ میں ہی کردیں اور ان کی اپیل 1-1ماہ میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں نمٹائی جائے تاکہ ان جرائم میں ملوث لوگ جلد از جلد اپنے کیفر کردار تک پہنچ سکیں۔ اس کے علاوہ اس ترمیم میں یہ قانون بھی بنایا جائے کہ کسی پر جھوٹا مقدمہ بناکر بغیر تحقیقات کے گرفتار کرکے سالہا سال جیل میں ڈال کر کسی کی عزت اور زندگی پر کاری ضرب لگانے والے اہلکاروں اور افسران کو بھی سخت سزائیں ملنی چاہئیں اور جھوٹے مقدمات میں بے گناہ قرار پانے والے کو حکومت بھاری ہرجانہ ادا کرنے کی پابند ہو۔
برطانیہ میں زلفی بخاری کے ایک عزیز کے خلاف ماضی میں طیارہ ہائی جیکنگ کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا اور جب وہ باعزت بری ہوا تو اس نے بھاری ہرجانے کا دعوٰی کیا جس پر حکومت برطانیہ نے اسے ہرجانے کے طور پر کثیر رقم ادا کی۔ پاکستان میں بھی بے گناہوں کا ٹرائل کرنے پر گرفتار کرنے‘ تحقیقات کرنے والے افسران سمیت تمام ذمہ داران کے لئے سخت ترین سزاؤں کا تعین کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ حکومت بھی ایسے بے گناہ افراد کو بھاری ہرجانہ ادا کرنے کی پابند ہو تاکہ کسی کا بھی سیاسی انتقام یا دیگر بنیادوں پر ٹرائل نہ کیا جاسکے۔چیزوں کی مصنوعی قلت اور مہنگائی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور گندم‘ چینی سمیت اجناس حکومت سمیت تمام اداروں کی ملی بھگت سے ایک صوبے سے دوسرے صوبے یا پڑوسی ممالک کو جاتی ہے اور یہ ایسا مافیا ہے جو چیزوں کی غیر قانونی نقل و حمل کرتے وقت بھی بھاری کمیشن کماتا ہے اور پھر ان چیزوں کی بیرون ملک سے درآمد کی اجازت دیکر خریداری‘ شپمنٹ‘ ٹرانسپوریشن‘ اسٹوریج سمیت ہر ہر مرحلے پر بھی بھاری کمیشن کھاتا ہے اور یہ سلسلہ جنرل مشرف کی حکومت آنے تک ماضی میں ہوتا رہا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ مافیا زاب ایک بار پھر مکمل طور پر فعال ہوچکے ہیں اور ملک طویل عرصے بعد ایک بار پھر گندم درآمد کرنے پر مجبور ہوچکا ہے۔ ان مافیاز کے سامنے فی الحال ہماری تمام صوبائی اور وفاقی حکومت مکمل طور پر بے بس نظر آتی ہیں لیکن اس تمام کھیل کے اثرات عام آدمی پر پڑ رہے ہیں جس کا اثر یہ ہے کہ کراچی میں جولائی کے ایک ماہ میں ہی آٹے کی قیمتوں میں 9روپے فی کلو اضافہ ہوچکا ہے۔ اسی طرح چینی‘ گھی ‘ دالیں اور سبزیوں کی قیمتوں سمیت کسی بھی طرح حکومت کی پرائس کنٹرول پر کوئی گرفت نظر نہیں آتی اور عوام تحریک انصاف کی کارکردگی سے تاحال مکمل طور پر مایوس ہے۔اسی لئے حکمراں جماعت اپنے منشور کو دوبارہ پڑھے اور اپنی ماضی کی تقریریں سن کر سنجیدگی سے اقدامات کرے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے اور مافیاز پر قابو پایا جاسکے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024