بلوچستان ہمارے وطن عزیز کا سب سے بڑا اور رنگا رنگ معدنیات سے بھرپور صوبہ ہے۔ یہاں کے لوگ محنتی،جفا کش اور سپاہیانہ خصوصیات کے حامل ہیں۔ بودوباش میں سادہ مگر سردار پرست لوگ ہیں۔ سردار کی وفاداری جزو ایمان ہے۔ سردار تو مالدار اور بہت زیادہ تعلیم یافتہ لوگ ہیںمگر عوام نہایت غریب اور ان پڑھ ہیں۔ صرف بھیڑ بکریاں پالنے یا سردار کی خدمت کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کر سکتے۔ یہاں تک کہ شہروں میں آکر مزدوری بھی نہیں کرتے۔ ان کی سادگی اور جاہلیت کا یہ عالم ہے کہ1875میں انگریزوں نے سندھ کے راستے بلوچستان پر حملہ کیا اور کچھ علاقہ فتح کر لیا۔ کافی سارے بلوچ مارے بھی گئے۔ ڈوڈے خان بلوچ اسی علاقے میں بھیڑ بکریاں چرایا کرتا تھا۔اس نے دیکھا کہ انگریزوں نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر ایک توپ لگارکھی تھی جس کے فائر سے بہت سے لوگ مرے تھے۔ ڈوڈے خان کو بہت غصہ آیا۔دوسرے دن صبح سویرے جا کر توپ کے سامنے چھاتی لگا کر کھڑا ہو گیا ۔کہنے لگا آج میں نے کوئی گولہ یہاں سے نکلنے ہی نہیں دینا۔گن کے انچارج لیفٹیننٹ ولسن نے یہ تماشہ دیکھا تو اپنے کمپنی کمانڈر میجر ایڈورڈزکو بلا لیا ۔سب بہت ہنسے پھر میجر ایڈورڈز نے یہ کہہ کر ڈوڈے خان کو سو روپیہ انعام دیا کہ یہ بہت بہادر آدمی ہے اور یوں اسے وہاں سے بھیج دیا گیا۔
ایسے سادہ اور بہادر لوگ تو قوم کا سرمایہ ثابت ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ان کے دل جیتے جائیں۔ بلوچ بہت خوددار اور باعزت لوگ ہیں جو اپنی عزت کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ المیہ ہے کہ ان کا زیادہ تر علاقہ پتھر یلا اور بنجر ہے۔ پانی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لئے نہ تو زراعت ہو سکتی ہے اور نہ کسی انڈسٹری کا سکوپ ہے۔ اسی لئے لوگ بھیڑ بکریاں پال کر گزارہ کرتے ہیں۔ معقول ذریعہ آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے غربت بہت زیادہ ہے۔ پاکستان بننے کا انہیں تاحال کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بلوچستان کا المیہ یہ ہے کہ 1947 میں جب ریاست قلات کو ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے یا آزاد رہنے کا پوچھا گیا تو خان قلات نے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن حکومت پاکستان کے پاس جو معاہدہ ہے اس پر خان قلات کے دستخط موجود ہیں۔ اس لحاظ سے خان نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا۔ اس لحاظ سے وہ پاکستان کا حصہ ہیں لیکن بلوچوں کا سٹینڈ یہ ہے کہ خان نے دستخط نہیں کئے تھے بلکہ ان سے زبردستی فوج کے زور پر دستخط کرائے گئے تھے۔ اب معلوم نہیں حقیقت کیا ہے ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ 1948یعنی پاکستان بننے کے ایک سال بعد سے بلوچ فوج سے لڑ رہے ہیں۔ زیادہ تر بلوچ سردار خصوصاً نوجوان نسل ایک آزاد وطن کے خواہشمند ہیں۔ وہ بلوچستان سے بھاگ کر یورپ اور امریکہ چلے گئے ہیں۔ وہاں سے تحریک آزادی چلا رہے ہیں۔ بھارت ان کا ساتھ دے رہا ہے۔ بھارت نے انہیں بھارتی شہریت بھی دے رکھی ہے اور بہت زیادہ مالی امداد بھی کر رہا ہے جس وجہ سے یہ لوگ وہاں یورپ اور امریکہ میں پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں جبکہ ان کے پیروکار اور قبائلی لوگ بھاگے ہوئے سرداروں کے نام پر بلوچستان میں دہشتگردی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ بھارتی ’’ را ‘‘ اور NDS افغان ہتھیار اور تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں تقریباً دو درجن سے زائد آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور یہ لوگ بہت دلیری سے پاکستان فوج سے لڑ رہے ہیں۔ اسے ہم معمولی قسم کی مقامی تحریک نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ لوگ ٹرینڈ کمانڈوز کی طرح لڑتے ہیں اور بہت اہم اہداف پر حملے کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں بلوچ لبریشن آرمی نے کراچی میں سٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا۔ گو خود بھی مارے گئے لیکن چار گارڈز بھی مار دئیے۔25جولائی کو تربت میں فوج کی ایک گشت پارٹی پر حملہ کیا۔ایک جوان مارا گیا اور تین زخمی ہو گئے اس سے پہلے چینی سفارتخانے پر حملہ کیا۔ چین چونکہ ہمارا دوست ہے اس لئے یہ لوگ بھارت کے کہنے پر چین سے ہمارے تعلقات ہر صورت میں خراب کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے گوادر میں پرل ہوٹل پر حملہ کرکے کچھ لوگ مارے ۔ علاقے میں بھی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ 14جولائی کو پنجگور میں پاک فوج کی ایک پٹرولنگ پارٹی پر حملہ کیا جس میں تین جوان شہید اور ایک آفیسر سمیت8جوان سخت زخمی ہوئے۔ 19مئی کو مچھ کے علاقے میں ایرانی بارڈرسے صرف9کلو میٹر دور پاک فوج کی پٹرولنگ جیپ کو بارودی سرنگ سے نشانہ بنایا۔ اس حملے میں 6جوان شہید ہوئے۔ اسی طرح8مئی کو بلوچستان کے علاقے ’’ کیچ ‘‘ میں ایف سی کی گاڑی پر بارودی سرنگ سے حملہ ہوا جس میں میجر ندیم عباس سمیت پانچ جوان شہید ہوئے۔ بلوچ جنگجوئوں کو بھارت اور افغانستان نے بہت اچھی طرح سے تربیت دی ہے اب یہ بہت مہارت سے پاک فوج یا دیگر سول اہداف پر حملے کر رہے ہیں۔ کوئی ہفتہ خالی نہیں جاتا کہ حملہ نہ ہو۔ یہ بالکل مشرقی پاکستان والے حالات ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ 1947سے لیکر اب تک پاکستان سے بلوچستان کو کچھ نہیں ملا۔ بلوچستان کو وہ عزت بھی نہیں ملی اور نہ وہ ترقی نصیب ہوئی جو انکا حق تھا۔ اگر ترقی ہوئی ہوتی اور بلوچوں کو تمام سہولتیں ملتیں تو یقینا بلوچ پاکستان کے ساتھ رہ کر خوشی محسوس کرتے۔ دراصل بلوچستان کی زندگی سرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ اسمبلی ممبران بھی وہی منتخب ہوتے ہیں۔ لہٰذا ترقیاتی فنڈز بھی انہیں ہی ملتے ہیں۔ انہیں علاقے کی ترقی میں کوئی دلچسپی نہیں وہ سارا پیسہ اپنی عیاشیوں پر خرچ کر دیتے ہیں۔ ویسے بھی سرداروں کو پتہ ہے کہ اگر علاقہ ترقی کر گیا تو یہ لوگ سرداروں کی فرمانبرداری سے بھاگ جائیں گے۔ اس لئے سکول وہاں کئی کئی میل دور ہیں۔ ٹیچرز موجود نہیں ہوتے۔ اس لئے تعلیم کا کوئی مناسب بندوبست نہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ طبی سہولتیں بھی موجود نہیں۔ انڈسٹری نہ ہونے کی وجہ سے روز گار بھی نہیں۔ پس ماندگی کا یہ عالم ہے کہ پینے کا پانی تک میسر نہیں۔حکومت پاکستان کو بلوچستان کا یہ مسئلہ سیاسی طورپر حل کرنا چاہیے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024