گرے لسٹ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ایک عارضی فہرست ہوتی ہے جس میں منی لانڈرنگ نہ روکنے والے ملکوں کو شامل کیا جاتا ہے اگر وہ منی لانڈرنگ روک لیں تو گرے لسٹ سے ان کا نام نکال دیا جاتا ہے۔پاکستان کو جولائی 2018 میں اس وقت گرے لسٹ میں شامل کر دیا گیا تھا جب پاکستان میں نگران حکومت کام کر رہی تھی اور نئی حکومت کو ابھی عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی کابینہ بنانے کے لیے اور پاکستان کی اقتصادی اور داخلہ وخارجہ پالیسیوں کو مرتب کرنے کے لیے ہی ایک طویل وقت درکار تھا۔ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے صرف پندرہ ماہ دیے گیے جو پی ٹی آئی کی نومولود حکومت کے لیے حقیقتاً ایک ناقابل تسخیر چیلنج تھا۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس آن منی لانڈرنگ (ایف اے ٹی ایف ) ایک عالمی ادارہ ہے جسے 1989 میں امریکہ برطانیہ کینیڈا فرانس اٹلی جرمنی اور جاپان کے اشتراک سے قائم کیا گیا تھا ۔دو سال پہلے تک 37 ملک اس کے ممبر تھے پیرس میں اس کا صدر مقام ہے یہ ادارہ دنیا بھر میں کہیں بھی اپنا کام کر سکتا ہے یورپی یونین اور مجلس تعاون براہے خلیجی ممالک کی تنظیموں کے علاوہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف بھی اس کے دائرہ کار میں شامل ہیں پاکستان بھی ایشیا پیسفک گروپ کا ممبر ہونے کے ناطے اسکے اشتراک میں ہے۔پہلے اس ادارہ کا مقصد دنیا بھر میں منی لانڈرنگ کو روک کر جرائم کے ذریعے حاصل ہونیوالی دولت کو کنٹرول کرنا تھا لیکن نائن الیون کے بعد اس ادارہ کی ذمہ داریوں میں دہشت گردی کے مالی وسائل کا سدباب کرنا بھی شامل کر دیا گیا۔یہ ادارہ ان ملکوں پر اقتصادی پابندیاں عائد کرتا ہے جو دہشتگردوں کو تعاون فراہم کرتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں کا حصہ نہیں بنتے۔
پاکستان سے پہلے ایف اے ٹی ایف نے جنوبی کوریا اور ایران پر بھی اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جبکہ افغانستان جس کو دہشت گردی پیدا ہونے کا باعث تصور کیا جاتا ہے امریکی دبائو کے باعث اسے کبھی گرے لسٹ کا حصہ نہیں بنایا گیا جس سے یہ واضح تاثر ابھرتا ہے کہ عالمی سازش کے تحت ان ملکوں کو گرے لسٹ کی لپیٹ میں لیا جاتا ہے جو امریکی مفادات کے برعکس تصور ہوتے ہیں۔پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے پندرہ ماہ کا وقت دیا گیا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کی مالی معاونت کے نیٹ ورک کا خاتمہ کرے اور منی لانڈرنگ کنٹرول کرے اگر پاکستان یہ ٹاسک پندرہ ماہ میں پورا کر لے تو اسے گرے لسٹ سے نکال دیا جائیگا اور ناکامی کی صورت میں بلیک لسٹ میں شامل کر دیا جائے گا۔پاکستان جیسے ملک کیلئے یہ بہت بڑی دھمکی تھی کیونکہ فروری میں ایف اے ٹی ایف کے ایما پر ایران کو بلیک لسٹ کیا جاچکا تھا جس میں 250 ملکوں کے 800 سے زاید نمایندوں نے ایران کو بلیک لسٹ میں شامل کیے جانے کی حمایت کی تھی۔ پاکستان نے اس عالمی سازش کا تدارک کرنے کیلئے فوری موثر اقدامات اٹھانے شروع کردیئے اور ایف اے ٹی ایف کو اپنے 26 نکات پیش کئے جن کے تحت جماعت الدعوہ اور جیش محمد سمیت دیگر تنظیموں کو کالعدم قرار دیکر انکے اثاثہ جات حکومتی تحویل میں لے لیے گئے اور حافظ سعید سمیت متعدد کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس دوران پاکستان نے 66 ادارے اور 7600 افراد کو کالعدم قرار دے کر انکے خلاف مقدمات بھی درج کئے۔
اس سے قبل پاکستان 2015 سے 2018 تک اسی مد میں 228 مقدمات درج کر کے 337 افراد گرفتار بھی کر چکا تھا جن میں 58 کو سزاہیں بھی ہوہیں اور موجودہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے خلاف عملی اقدامات اٹھاتے ہوہے کالعدم تنظیموں کے فنڈز بھی منجمد کئے‘ دہشت گردی کا نیٹ ورک توڑنے اور ان کو سزائیں دلانے کے لیے پاکستان میں نیشنل کاونٹر ٹیرازم اٹھارٹی (نیکٹا ) بھی مسلسل کام کر رہی ہے جس کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں شامل کر دیا جانا چاہیے تھا لیکن ایف ٹی اے ایف کے نمائندوں کے سامنے پاکستان کی یہ کاروائیاں ناکافی ثابت ہوئیں۔
ان حالات کے دوران بھارت کی سرتوڑ کوشش رہی کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کروا کر اسے مزید اقتصادی پابندیوں میں جکڑ دیا جاہے جس کے لیے اس نے پاکستان کی دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں کے دوران پاکستان کی توجہ ہٹانے کے لیے کبھی بارڈر پر فوجیں اکٹھی کیں اور مسلسل ایل اوسی کی خلاف ورذی کرتا رہا اور فضائی دخل اندازی بھی کر کے جنگی صورتحال سے پاکستان کو مالی بحران میں مبتلا کر دیا تا کہ ایف اے ٹی ایف کا پاکستان کو دیا گیا پندرہ ماہ کا وقت بیرونی خطرات سے نبٹنے میں ضائع ہو جاہے لیکن پاکستانی قیادت نے کمال کی منصوبہ بندی سے اپنے اندرونی اور بیرونی تمام اہداف انتہائی جانفشانی سے مکمل کیے ۔ ان دو سالوں میں پاکستان کو ختم کرنے کی عالمی سازشوں اور بیرونی طاقتوں کی مسلسل کھینچا تانی سے اندرون ملک غیر محب وطن سرمایہ داروں نے مہنگائی اور بدامنی کا ایک ماحول ایسے وقت پیدا کئے رکھا ۔جب پی ٹی آئی کی نئی حکومت پاکستان کی بقا کے لیے برسرپیکار تھی اصل حقائق سے بے خبر عوام یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ ایک نئی حکومت کن چیلنجز کا سامنا کر رہی تھی جس کو بیک وقت ان محاذوں کے ساتھ ساتھ کورونا کی افتاد سے بھی نبٹنا پڑ گیا ہے۔
اب پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں گزشتہ بدھ کے روز انسداد دہشت گردی ترمیمی بل اکثریت رائے سے منظور کر لیا گیا ہے۔ سینٹ میں اپوزیشن ارکان کی اکثریت ہے اس کے باوجود وسیع تر ملکی مفاد کے تحت جمعرات کو سینٹ کے ہونے والے اجلاس میں حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان نے مل کر سوائے ایک جماعت کے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل متفقہ رائے سے منظور کیا جس میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کو دس سال تک سزا اور ایک سے پانچ کروڑ تک جرمانہ کیا جاسکے گا۔ اب چھ اگست کو ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس کی توثیق کا غالب امکان ہے کیونکہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کا فراہم کیا جانے والا مزید چھ ماہ کا وقت چھ اگست کو ختم ہو رہا ہے۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024