فلسفہ قربانی و حج
کلمہ توحید انسان کو دائرہ اسلام میں داخل کرتا ہے۔ ایک اللہ کو ماننا اور محمد ﷺ کو اس کا رسول ماننے کا اقرار کرنے کے بعد بنیادی عقائد کو زندگی میں لاگو کرنا اس بات کا علی الاعلان اظہار ہوتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔عبادات میں سے 2 عبادات ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہیں،امیر ہو غریب ہو بالغ ہو، نوجوان ہو بوڑھا ہو۔۔نماز اور روزہ 2 عبادات ایسی ہیں جو صاحب نصاب اور صاحب استطاعت پر فرض ہیں۔۔۔ زکوٰۃاور حج/قربانی ۔ آج ہم حج و قربانی کے فسلفہ پر بات کریں گے جس کا ذکر ہمیں البقرہ کے 24،25 رکوع میں ملتا ہے اور سورہ الحج کے چوتھے رکوع میں ،سورہ ابراہیم،الصافّات ،الانعام اور بھی بہت سی آیات میں۔بے شک سب سے پہلی عبادت گا ہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکّہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا ۔ پہلی بار حضرت آدم علیہ السلام نے اس کی تعمیر فرمائی۔ حضرت عبداللہ بن عمروا بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حضرت آدم علیہ السلام کے پاس تعمیر بیت اللہ کا حکم دے کر بھیجا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام اسکی تعمیر سے فارغ ہوئے، تو حکم ہوا کہ اس گھر کا طواف کرو۔ یہ ارشاد بھی ہوا کہ تم پہلے انسان ہو اور یہ پہلا گھر ہے جو لوگوں کی عبادت کیلئے بنایا گیا ہے۔‘‘ (ابن حجر، فتح الباری، ج۶، ص۲۸۵)
سیلابوں کی وجہ سے گھر کی عمارت گر گئی تو اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو دوبارہ انہی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا حکم دیا ۔ حج کی ادائیگی کے ساتھ ہی قربانی،حجامت اور احرام اتارنا۔فی سبیل اللہ قربانی کے عمل میں تمام عالم اسلام دنیا بھر سے شامل ہوجاتا ہے۔میقات پر احرام باندھنا۔ طواف۔۔سعی صفا و مروہ۔۔وقوف عرفات۔۔ مزدلفہ۔ منیٰ۔اور طواف زیارت۔ پھر منیٰ رمی جمرات۔ پھر طواف وداع ‘گویا حج کیا ہے ایک جامع عبادت۔۔ اسوہ ابراہیمی کی یادگار۔ توحید کی علامت۔
تلبیہہ کیا ہے۔
یہ ایک تذکیر ہے ایک ارادہ ہے ایک عہد ہے ایک پیمان ہے ایک دعویٰ ہے جس کا آغاز الست بربکم سے ہوتا ہوا۔۔۔کلمہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ تک آتا ہے۔۔۔کہ وہی مالک وہی رب۔۔۔ اس کے در پر حاضری کا احساس ہے۔ یہ کہ ہم اس سے بے پناہ محبت کرتے ہیں کہ وہی تو ہماری محبت کا واحد حق دار ہے۔۔۔اے خدا تیرے لئے۔۔۔تیری رضا کے لئے۔۔۔تیری خوشنودی کے لئے ہم بے چین ہیں۔
احرام کیا ہے؟؟
لباس فاخرانہ ،تصنع اور بناوٹ،جاذب و حسین رنگوں سے مبرا سفید دودھیا لباس پہن کے پاکیزگی کا احساس لئے حاضر ہیں،سب مسلمان ایک لباس ایک ملت رنگ و نسل سے پاک۔۔۔۔مساوات انسانی کی اعلیٰ مثال۔۔۔زیب و زینت کی فکر سے آزاد بس اپنے ہی رب سے لو لگانے کو تیار۔ طواف۔۔۔دیوانہ وار تیری رضا کی تلاش کیلئے بھاگنا۔۔۔ لبیک لبیک کہتے۔ہماری زندگی کا مالک تو ہے۔ہمارے ہر فیصلے میں برتر تو ہے اور ایسے ہی ہم دنیا کی دوڑ دھوپ میں تیری رضا مقدم رکھیں گے۔ سعی۔۔ہمیں ہر پل تیری رضا کے لئے ،تیرے راستے میں دوڑ و دھوپ۔۔اور ساری زندگی یہی کوشش کرنا ہے۔۔اسی میں جان گھلانا ہے۔ عرفات۔۔۔ امت واحدہ کا تصور۔۔ اجتماعیت اور قوت کا اظہار۔اس ساری عبادت سے خود گزر چکے ادا کرچکے تو مبارک باد۔۔اب اپنے حج کی حفاظت کریں۔۔۔عمرہ نصیب ہوا تو بھی یہی ارادہ کرلیجئے اور بلاوے کے منتظر ہیں تو بھی عشرہ ذوالحج سے فیض یاب ہوئیے ، روزے رکھنا، عبادت بڑھا دینا،یہاں سے حج کی نشریات دیکھنے کا بھرپور اہتمام کرنا، قربانی کی استطاعت ہے تو جانور کی قربانی کرنا یا حصہ ڈالنا۔۔۔ قربانی۔۔ اعلیٰ ،بہترین، پسندیدہ چیزسنت ابراہیمی سمجھتے ہوئے رب کے حضور پیش کرنا۔ہمارے سوچنے کی بات یہ ہے کہ سنت ابراہیمی کے اس عمل سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے ۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آخر اس کو تا قیامت امت محمدیہ کے لئے عمل کیوں بنادیا گیا ۔ جب اللہ کو ہمارے قربان کئے جانوروں کا نہ خون پہنچتا ہے نہ گوشت۔۔۔ اور پھر اس سے تقویٰ کیسے نکلتا ہے؟؟
تقویٰ کا مقام حدیث مبارکہ کے مطابق دل ہے تو کیا دل کی قربانی؟کس چیز کی قربانی۔قیمتی ترین چیز کی قربانی۔۔۔نفس و انا کی قربانی،اللہ کی راہ میں اپنی صلاحیتوں اپنے وقت کی قربانی،خود پرستی اور خود پسندی کے بچھڑے کی قربانی ۔ قربانی کا عمل بھی اس سال خاصا مشکل ہوگا۔۔۔۔اور مشکل میں کی جانے والی عبادت یقیناً زیاد اجر کا باعث ہوتی ہے قربانی کی ادائیگی کرسکیں یا نہ کرسکیں اس کا مقصد تو ہم سب حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔اس سے اللہ کو اطاعت اور تقویٰ مطلوب ہے اور اس کا مقام دل ہے۔
دل کی لگن بیدار کریں کہ اب بھی نہ کی تو کب کرسکیں گے۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا تیزی سے اپنے انجام کو بڑھ رہی ہے ہمارے پاس بہت وقت نہیں رہ گیا۔اس سال پاکستان کی بزرگ دینی رہنماؤں کی کثرت سے اموات ہمیں بہت کچھ بتا رہی ہیں اپنے رب کے آگے جھک جائیے اپنی زندگیوں کو بدل لیجئے یوں جانئیے کہ یہ ایام حج و قربانی اس سال ہمیں حقیقی معنوں میں زندگیاں بدلنے کے لئے آئے ہیں اگر ہم نے انکے مقاصد کو حاصل کرلیا تو کوئی بعید نہیں کہ رب رحمان اگلے سال مجھے آپ کو اپنے گھر بلالے۔وہ اس پر قادر ہے بس شرط وفاداری ہے۔دل کی لگن ہے۔اپنی زندگیوں کو بدلنے کی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024