کسی نے سچ کہا ہے کہ عید قربان پہ ہمیں دُنبہ تو یاد رہتا ہے لیکن اس قربانی پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے درمیان ہونے والی گفتگویاد نہیں ہے، مقامِ افسوس ہے کہ آج ہمارے بچوں، نوجوانوں حتٰی کہ بزرگوں تک کو قربانی کاجانور لینا اور گلی گلی اُس کی واک کا خاص اہتمام کرنا تو یاد رہتا ہے لیکن ان بزرگوں نے اپنے اجداد کی روایت سے بھی تقریبا انحراف کرلیا ہے اور نوجوان نسل اور بچوں کو عید قرباں کی اصل رُوح سے آگاہی دینے کے فرض کو فراموش کردیا ہے۔دوسری طرف ہمارے علماء اور مولوی حضرات نے بھی اپنا کردار ادا کرنا تقریباً ختم ہی کردیا ہے جگہ جگہ قربانی کی کھالوں کے ان گنت حقدار تو نظر آتے ہیں لیکن اسلام کی اصل تصویر کو پینٹ کرتا ہوا کوئی نہیں نظر آئے گااصل تصویر تو کیا ہی پینٹ ہونا تھی بلکہ اسلام کا اصل چہرہ بھی کئی قباحتوں اور سیاستوں کے غبار میں دھندلانے لگ گیا۔ مذہبی رہنمائوں کا کردار ہر مذہب میں ایک نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ صدیوں تک عوام کو اپنے ماتحت اور پابند رکھنے کیلئے خودساختہ قوانین بنا دئیے گئے تھے اور ان قوانین کا سختی سے اطلاق کیا جاتا تھا۔ یہ معاملہ محض ایشیاء نہیں بلکہ یورپ تک میں چل رہا تھا مذہب کے پیروکار تو ہر جگہ اپنا اپنا کردا ر ادا کرتے نظر آتے ہی ہیں جو بھی ان قوانین کی خلاف ورزی کرتا اُسے سخت سزائیں دی جاتی تھیں بے دین، ملحد اور مذہبی خلاف ورزی پر انتہائی سخت سزائیں نافذ کی جاتی تھیں۔ خیر ایسا صرف سولہویں صدی تک ہی نہیں اور نہ ہی یہ قصہ محض یورپ کی منظر نگاری ہے۔ ہر جگہ یہی کچھ ہورہا تھا اور میری رائے میں آج بھی اس روایت میںکوئی خاص تبدیلی وقوع پذیر نہیں ہوسکی۔ دھرنے اور سڑکیںبند کرنے کا آئے روز کا سلسلہ ہم کئی بار دیکھ چکے ہیں، حیرت ہے مندر کی تعمیر کے اعلان نے ابھی کسی کو بیدار نہیں کیا۔ خیر چھوڑئیے ایسے کئی سوال ذہن کی آوارہ سڑکوں پر دندناتے ہی رہتے ہیں۔ سولہویں صدی عیسوی ہی میں ان رہنمائوں کے کہنے پر چار لاکھ لوگوں کا بے دردی سے قتل عام کردیا گیا تھا محض کسی کے بارے میں اتنا کہہ دینے پر کہ وہ لادین ہوچکا ہے قتل کردینے سے گریز نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کی نسبت اسلام نے کھلے دل سے ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے وسیع دامن میں پناہ دی اُوپر کے واقعات پوپ ازم سے وابستہ ہیں جنہوں نے جرمنی کے بادشاہ ہنری کو بھی کافر قرار دے دیا تھا اور پھر بھاری ہرجانے پر اور معافی مانگنے پر اُس کی جان بخشی کی گئی تھی۔ اسلام کے دامن میں ہمیشہ دوسرے مذاہب کیلئے محفوظ پناہ رہی لیکن نجانے تنگ نظری آہستہ آہستہ ہمارے ذہنوں کے اندر کیسے سرایت کرگئی۔ بہت حد تک اپنے مذہب سے دوری بھی اختیار کرنا شروع کردی۔ طیب اردگان کے آیا صوفیہ والے اقدام سے تحریک ملتی ہے کہ ہمیں ماضی کی طرف لوٹ کر دیکھنا ہی نہیں اپنی عمدہ اسلامی روایات کو دوبارہ اپنے سینے سے لگانا بھی ہے اور اس شمع کی جوت کو اگلی نسلوں کے دلوں میں جلانا بھی ہے۔ اب لاک ڈائون کے تناظر میں کچھ جائزہ لیں تو ایسی عید قربان شاید اس سے پہلے اس طرح کے حالات میں نہیں آئی یہاں احتیاط کی اشد ضرورت تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی حکومت کی طرف سے بھی بد انتظامی کے واقعات تواتر سے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ چند کیسز پر اچانک لاک ڈائون نافذ کردیا گیا۔ کیسز کی تعداد میں شدت سے اضافہ ہوا تو نرم لاک ڈائون متعارف کروادیا گیا۔ تاجروں نے عید تک کم از کم دُکانیں کھلی رکھنے کیلئے احتجاج کیا تو اچانک اُسی رات بارہ بجے سے تمام مارکیٹس اور دُکانیں بند کردینے کا حکم نامہ جاری ہوگیا۔ جب عوام کو خبر ہوئی تو چند گھنٹوں میں اپنی باقی عید کی تیاری کیلئے ہجوم در ہجوم بازاروں میںنکل آئے کہ سڑکیں ہی بلاک ہوکر رہ گئیں۔ کیا فائدہ ایسے اعلان اور ایسے لاک ڈائون کا کہ جو خدشہ یا مرض اگلے چند دنوں میں پھیلنے کے امکانات تھے وہ فوراً چند گھنٹوں کے دوران پورا ہوگیا۔ سچ پوچھیں تو تفریقی سلوک کی بناء پر تاجرین اپنے موقف پر غلط ہرگز نہیں ہیں۔باقی رہے نام اللہ کا۔ وہ ہمارے تمام حالات کو درست کرے اور ہمارے دماغوںکو روشن کرے۔آمین
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024