اب وہ زمانے لدگئے جب شہر شہر صاحبان علم وہنر،شعر وادب اور سیاست کے چمکتے ستارے ہوا کرتے تھے ۔لاہور تو خیر مرکز تھا۔مگر اس کی مقناطیسی کشش کے سبب باقی شہروں سے بھی کچھ یگانہ روز گار لوگ اس شہر میں تشنگان علم کو سیراب کرتے ۔ہمارے گوجرانوالہ میں بہت سے لوگ ایسے تھے جن کی یادیں بھلائے نہیں بھولتیں۔علامہ عزیز انصاری بھی اسی قبیلے کے ایک فرد تھے۔بہت سے لوگوں کے بارے میں سنا تو بہت مگر دیکھانہیں کہ وہ شہر میں کیسی کیسی مجلس آرائیاں کرتے تھے ۔مثلا70کے دہائی کے باالکل او اخر میں جب شہر کے ایک بڑے سیاسی وثقافتی مرکزٹی ۔روم میں میرا آناجانا شروع ہوا تو سابق صدر پاکستان جناب رفیق تارڑ کی بذلہ سنجی، برمحل لطائف واشعار ،عطاء اللہ شاہ بخاری سے انکے عقیدت اور ختم بنوت سے عشق کی حدتک لگائو کی بڑی داستانیں سنیں۔انکی دوستیاں شہربھر کے کئی کاروباری لوگوں اورصنعت کاروں سے بھی مثالی تھیں ،مگر یہ سب کچھ سننے میںتو آیا۔مگراس کامشاہدہ نہیں ہوسکا۔کچھ اور لوگوں کی بابت بھی سنا مگر انہیں شہر میں کبھی دیکھنے کا موقع اس لئے نہ مل سکاکہ انکی اکثریت اب لاہور جاچکی تھی ۔ایک بڑاطبقہ ان سیاسی وسماجی لوگوں کا بھی تھا جو روزانہ صبح لاہور جاتے اور شام کو یارات گئے واپس گوجرانوالہ پہنچ جاتے ۔میراشمار بھی ایسے ہی لوگوںمیں ہوتا تھا اور علامہ عزیز انصاری کے علاوہ ملک معصوم ،ملک نوازش اور لاہور تھیٹر پر فن کاجادوجگانے کیلئے جدوجہد کرنیوالے ببوبرال ،مستانہ ،زاہد خاںاور اشرف راہی وغیرہ کے علاوہP.T.Vپر کمپیئرنگ کے بادشاہ دلدارپرویز بھٹی کا بھی یہی معمول تھا۔علامہ صاحب سے میراپہلا تعارف تب ہواجب ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف 77ء میں انتخابات کا آغاز ہوا۔اپنی تعریف مقصود نہیں ،جاننے والے ویسے بھی جانتے ہیں کہ "پاکستان قومی اتحاد"کے گوجرانوالہ اور لاہور کے جلسوں میں سٹیج پرمیں پنجابی زبان کا مرکزی مقرر ہواکرتاتھا ۔ گوجرانوالہ میں اردو زبان کے خواجہ عماد الدین بھی دبنگ مقررتھے۔علامہ عزیز انصاری جب سٹیج پر آکر خطاب کرتے تو انکے حاسدین جن میں خود انتخابی امیدواران بھی شامل تھے ہمیشہ آڑے آجاتے ۔مگر وہ اپنا راستہ بنانا جانتے تھے۔ اپنی محفلوں میں علامہ احسان الہی ظہیر کے ساتھ انکی نوک جھونک بھی جاری رہتی۔ کیونکہ علامہ صاحب شہیدنے سالہاسال تک اپنی طالب علمی کی منازل گوجرانوالہ میں انکی برادری کے قائم کردہ مدرسہ میں طے کی تھیں۔علامہ احسان الہی ظہیر تب تحریک استقلال کے سیکرٹری اطلاعات تھے اس لئے میرا بھی اس سیاسی حوالے سے انکے ساتھ گہر اتعلق تھا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جس نے لاہور میں رہ کرپاک ٹی ہائوس ،چینز لنچ ہوم ،کافی ہائوس اور لارڈز ریسٹورنٹ کے علاوہ آغا شورش کے محفلوں میں شرکت نہیں کی وہ زندگی کے بے شمار زاویوں سے ناآشنا رہا۔ان کی محفلیں پورا دبستان تھیں جگر داری ،خطابت اور صحافت کا ۔علامہ عزیز انصاری جو کچھ خزانے لے کر ان محفلوں سے آتے خوب جی بھر کے گوجرانوالہ کی محفلوں میں لٹاتے ۔گوجرانوالہ میں انکی بیٹھک زیادہ تر "کپور تھلہ ریسٹورنٹ"میں ہوتی یہیں پہلی بار مجھے ان کے بیٹے فاروق عالم انصاری سے ملنے کااتفاق بھی ہوا ۔علامہ عزیز انصاری کی رگوں میں مسلم لیگ اور ختم نبوت ساتھ ساتھ موجودرہتے ۔ایک اور خوبی ان کی جو مجھے پسند تھی کہ اگرچہ ان کے حاسدین بہت تھے اس میدان میں وہ مولانا ظفر علی خاں سے کچھ کم نہ تھے ۔مگر انہوں نے ہمیشہ ایسے لوگوں کوہر میدان میں چت کیاگوجرانوالہ میں اے آر شریف نام کا ایک قادیانی اسسٹنٹ کمشنر تھا۔شہر کے بہت سے نام نہاددانشور ،سیاسی راہنما اور ایسے ہی کچھ خوشامدی اس کے منہ چڑھے تھے۔ایک بار میں اور علامہ صاحب کسی کام کے سلسلے میںاس سے ملنے گئے تو اس نے ایک منصوبے کے تحت ان ٹٹ پونجیئوں کو ساتھ ملاکر علامہ صاحب کی ذات اور علمیت پر حملے شروع کردیئے اور آخر اپنی افسری کو انا کوخون پلانے کیلئے کہا کہ آپ تو جھوٹے علامہ ہیں ۔علامہ صاحب بھی کب چوکنے والے تھے جوابی وار کیا کہ جناب یہاں جھوٹے نبی آئے اور لوگوں نے تسلیم کرلئے میںاگر ایک جھوٹا علامہ ہوں توکیا ہوا۔یہ سن کرحیرت ہے کہ خوشامدی ٹولہ شرمندہ بھی نہ ہوا۔ بہت سے بیوروکریٹ اور معروف سیاستداں ان کے خاندان سے تھے۔اب بھی ہیں ،ناموں کی ایک طویل فہرست ہے ۔معروف بیرسٹر وقاص فاروق انصاری علامہ صاحب کے پوتے اور برادرم علامہ فاروق انصاری کے صاحبزادے ہیںوفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید گوجرانوالہ خاص طورپر ان سے ملنے گوجرانوالہ آیاکرتے۔جاتے ہوئے علامہ صاحب ،انہیں زادہ راہ بھی عنائت کرتے ۔علامہ عزیز انصاری گوجرانوالہ اور لاہور کی سیاست کا ایک تاریخی باب تھے ۔ان پر لکھنا ہوتو ایک کتاب درکار ہے ۔شعر وادب سے لے کرسیاست وخطابت کی جتنی بھی محفلیں بچی ہیںآج ان ساکوئی بھی کہیں نظر نہیں آتا۔جن سے مل کے زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ آپ نے شائد دیکھے نہ ہوں مگر ایسے بھی تھے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024